توبہ کا مفہوم ،اقسام واہمیت اور طریقہ کار
مفتی ابو الخیر عارف محمود
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
شانِ کریمی
حضرت انسان اگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفات ِمقدسہ، اس کی نعمتوں اور مخلوقات میں غور و فکر کرے تواسے معرفت الٰہی سے آشنائی حاصل ہو سکتی ہے، خاص طور سے ایک گنہگار اور معاصی کی دلدل میں پھنسا ہوا انسان جب بغرض ِ انابت وتوبہ اللہ عزوجل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم ،عفوو در گزر اور شانِ کریمی کے ساتھ اپنے بندہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ،نہ صر ف اس کے گناہو ں کو معاف فر ما دیتے ہیں، بلکہ بسا اوقات گناہو ں اور سیئات کو نیکیوں اور حسنات میں تبدیل فرمادیتے ہیں ۔
ابن ِ قیم کا ارشاد
اللہ کی طرف رجوع اور توبہ یہ انسانیت کی ابتدا بھی ہے اور معراج بھی ،ابن ِ قیم مدارج السالکین (ص: 141) میں فر ماتے ہیں: توبہ انسان کی پہلی ،درمیانی اور آخری منزل ہے، بندہ سا لک اسے کبھی اپنے سے جدا نہیں کرتا، مدت تک توبہ اور رجوع کی حالت میں رہتا ہے، اگر ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر اختیار کرتا ہے تو توبہ اس کی رفیق ہوتی ہے، جہا ں وہ جائے، پس توبہ بندہ کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی ،بلکہ ابتدا کی طرح موت کے وقت اس کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے ۔
آؤ توبہ کریں
توبہ دل کا نور ہے ،نفس کی پاکیزگی ہے، توبہ انسان کو اس حقیقی زندگی کی طرف راہ نمائی کرتی ہے۔اے غافل انسان !آوٴ! قبل اس کے کہ زندگی کا قافلہ کوچ کر جائے اور موت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ آ موجود ہو ،توبہ کرنے والوں کی ہم نشینی اختیار کر لو ،کیوں کہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ قبر محض ایک مٹی کا گڑھا نہیں ،بلکہ جنت کے باغو ں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔(کما رواہ الترمذي في سننہ عن أبي ھریرة رضی الله عنہ، کتاب صفة القیامة: 4/639،640، رقم الحدیث : 2460 )
پس جس کی ابتدا توبہ اور رجوع سے روشن اور چمک دار ہوگی اس کی انتہا بھی نور مغفرت سے منور ہوگی ،جو اللہ کی طرف رجوع اور توبہ میں اخلاص اور سچائی کو اختیار کر ے گا اللہ تعالیٰ اسے خاتمہ بالخیر کی تو فیق عطا فرمائیں گے ۔
توبہ سب کے لیے
توبہ صرف گنہگاروں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ سب ایمان والوں کو توبہ کا حکم دیا گیا ہے ، اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے : ﴿وَتُوبُوا إِلَی اللَّہِ جَمِیْعاً أَیُّہَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ﴾․ (النور :31)
(ترجمہ)اورتوبہ کرو اللہ کے آگے سب مل کر اے ایمان والو، تاکہ تم بھلائی پاؤ۔(ترجمہ از :شیخ الہند)
صحیح مسلم میں حضرت مزنی رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اے لوگو! گناہوں سے باز آجاوٴاور اللہ کی طرف رجوع کر لو اور میں ایک دن میں سو مرتبہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہوں ۔(صحیح مسلم،باب استحباب الاستغفار والاستکثار منہ، رقم:7034)
غور فرمائیں کہ جب اللہ تعالیٰ کے آخری نبی صلی الله علیہ وسلم، جو اولین وآخرین کے سر دار ہیں، بخشے بخشائے ہوئے ہیں، تمام جنتیوں کے سردار ہیں، مقامِ محمود کے مالک ہیں،وہ ایک دن میں سو مرتبہ اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ واستغفار کے عمل کو ا ختیار کرتے ہیں تو ہم گنہگار اور خطا کار امتیوں کو کس قدر توبہ واستغفار کا اور اللہ کی طرف رجوع کا اہتمام کر نا چاہیے؟!
غور وفکر کی ضرورت
محترم قارئین! جس طرح ہر روز صبح طلوع آفتاب سے لے کر رات کے اندھیروں کے پھیلنے تک ہم اپنے معاش دنیوی اور معمولی ضروریات سے لے کر اپنے تمام معاملات کی فکر کرتے ہیں، ایسے ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ،توبہ و استغفار کے حوالے سے بھی فکر مند ہونا چاہیے اور آخرت کے نا ختم ہو نے والے سفر کے لیے بھی زادِ راہ کی کوشش اور محنت کرنی چاہیے ،یہ تو ایک بدیہی بات ہے کہ جب آدمی کسی جگہ کے سفر کا ارادہ کرتا ہے تو وہ زادِ راہ کی فکر کرتا ہے اور آخرت کے سفر سے زیادہ یقینی سفر کو ن ساہو گااور توبہ اور رجوع الی اللہ سے بہتر کیا زادِ راہ ہوگا؟ بس اسی کو اپنا مشغلہ بنانا چاہیے، ایک جوان کا توبہ میں دیر کرنا قبیح اور بری بات ہے اور اس سے زیادہ بری اور قبیح بات اس بوڑھے شخص کاتوبہ میں تاخیر کر نا ہے جو اپنی زندگی کی اکثر بہاریں گزار چکا ہو اور اب کسی بھی وقت موت کی خزاں آیا ہی چاہتی ہو۔
لمحہ فکریہ
آج جس ماحو ل معاشرے میں ہم جی رہے ہیں اس میں ادنیٰ تأمل سے معلوم ہو جاتا ہے کہ ہر طرف نت نئے فتنے، طرح طرح کے گم راہ کن افکار و خیالات ،گناہ و معصیت کے لمحہ لمحہ بعد سامنے آنے والے اسباب وذرائع بہت تیزی و کثرت کے ساتھ پھیل رہے ہیں ،جن میں مبتلا ہو کر لوگ اللہ تعالیٰ سے دور اور توبہ سے غافل ہوتے جا رہے ہیں ،بلکہ اگر حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے تو یہ وا ضح ہوجاتا ہے کہ اللہ کے مطیع و فر ماں نبردار بندے کم ہیں جو نفس و شیطان کے مکر و فریب اور دجالی تہذیب کے پھندوں سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں مسلسل مصروفِ عمل نظر آتے ہیں، اس بھیانک اورخطرناک صورت ِحال کو دیکھ کر ایک مخلص مسلمان کا دل غم سے پارہ پارہ ہو جاتا ہے ا ور آنکھیں خون کے آنسو بہاتی ہیں اور دل و دماغ اور بدن سے ایک اضطرابی کیفیت کا اظہار ہو تا ہے کہ آج مسلمان اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں پر کس قدر جری ہو گیا ہے ،وہ کس جرأت و بے شرمی کے ساتھ اللہ کی نا فرمانی کر کے اللہ کے غیض و غضب کو دعوت دے رہا ہے، اس سے بھی زیادہ تعجب اور افسوس کا مقام یہ ہے کہ لوگ نیکی اور طاعت کو گناہ اور معصیت و نا فرمانی کو طاعت سمجھنے لگے ہیں اور یہ معمول بن چکا ہے اور ان کے طرزِعمل سے یوں محسوس ہو تا ہے کہ کوئی نئی بات نہیں اور انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، مزید تعجب یہ ہے کہ پھر اس سب کے با وجود وہ اللہ کی رحمت اور اس کی جنت کے طلب گار نظر آتے ہیں ۔
گناہوں سے فوری توبہ کی ضرورت
اس نازک موقع پر ہم سب ایمان والوں کو چاہیے کہ بغیر کسی استثنا کے فوری توبہ اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے ،موت سے پہلے موقع ہے اسے ضائع نہ کریں ،اللہ رحیم و کریم بھی اپنے بندوں کی توبہ کا انتظار فرماتے ہیں اور ان کی توبہ کو قبول کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بندہ توبہ کریں اور وہ قبول فرمائے ،چناں چہ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے: ﴿وَاللّہُ یُرِیْدُ أَن یَتُوبَ عَلَیْْکُمْ﴾․(النسآء:27)
(ترجمہ)اوراللہ چاہتا ہے کہ تم پر متوجہ ہو۔ (ترجمہ از : شیخ الہند) آئیے! آج ابھی اور اسی وقت توبہ کریں، پچھلے تمام گناہوں پر ندامت اختیار کریں اور آئندہ نا فرمانی نہ کر نے کا عزم لے کر ایک نئی زندگی کا آغاز کریں، ایک ایسی زندگی، جس کالمحہ لمحہ،پل پل، اللہ کی اطاعت اور فرماں برداری سے روشن و منور ہو ۔
گناہ کرکے توبہ نہ کرنے کا انجام
یہ یاد رکھیں کہ گناہ کا صدور ہونا ایمان کے منافی نہیں ،ایمان والے سوائے انبیا علیھم السلام کے کوئی بھی معصوم نہیں اورعام انسانوں سے گناہ کا ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، گناہ کا ہوجانا اور بھول چوک تو انسان کی فطرت میں داخل ہے ،یہ اتنا خطر ناک اور ہلاکت خیز نہیں ،جتنا گناہ ہوجانے کے بعد توبہ نہ کرنا اور اس سے غفلت اختیار کرنا ہلاکت آمیز اور تباہ کن ہے، مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”والذي نفسي بیدہ، لو لم تذنبوا لذھب اللّٰہ بکم، ولجاء بقوم یذنبون، فیستغفرون اللّٰہ، فیغفر لھم“․
(ترجمہ )قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!اگر تم گناہوں کا ارتکاب نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لے آئیں گے جو گناہ کرے گی اور اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کرے گی تو اللہ ان کی مغفرت فرما دیں گے ۔(صحیح مسلم،باب سقوط الذنوب بالاستغفار ،رقم :7141)
سنن ِترمذی اور سننِ ابنِ ماجہ میں حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کل بني آدم خطاء، وخیر الخطائین التوابون “․ یعنی تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور بہترین خطا کار توبہ کرنے والے ہیں ۔(سنن الترمذي ، کتاب صفة القیامة، رقم :2499،و سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد ، باب ذکر التوبة ، رقم : 4251)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ بندہ کا توبہ کرنااور اللہ کی طرف رجوع کر ناانتہائی ضروری ہے، ورنہ اسے اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے شمار کیا جائے گا ،امام مجاہد فرماتے ہیں:”من لم یتب إذا أصبح وإذا أمسیٰ فہو من الظلمین“․ جو شخص (ہر روز) صبح و شام توبہ نہیں کرتاوہ ظالمین میں سے ہے ۔ (تفسیر الثعلبي :1/119)طلق بن حبیب فرماتے ہیں کہ اللہ کے تمام حقوق کی ادائیگی بہت بڑی بات ہے، مگر تم توبہ کی حالت میں صبح و شام کرو “۔(تفسیر ابن کثیر :8/78،التفسیر المنیر :13/256)
ابنِ رجب فرماتے ہیں :”جس نے بغیر توبہ کیے صبح و شام کی و ہ خطرے میں ہے، اسے یہ خوف دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں بغیر توبہ کے اللہ سے ملاقات نہ ہوجائے اور اللہ اس کاشمار ظالموں میں نہ کردیں“اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿من لم یتب فاولٰئک ھم الظلمون﴾․ (الحجرات:11) (لطائف المعارف،ص:458)ترجمہ:اور جو کوئی توبہ نہ کرے تو وہی ہیں بے انصاف۔ (ترجمہ از : شیخ الہند)
مدارج السالکین (ص،142)میں ابن قیم نے لکھا ہے کہ ا للہ تعالیٰ نے آیت ﴿من لم یتب فاولئک ھم الظلمون ﴾ میں بندوں کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں :توبہ کرنے والےظالم اور یقیناًان دو کے علاوہ کوئی تیسری قسم نہیں اور توبہ نہ کرنے والوں کو اللہ نے ظالم شمار کیا ہے ۔
معصیت کے نقصانات
ابنِ قیم فرماتے ہیں کہ بندے کو چاہیے کہ اسے معلوم ہو کہ گناہ ومعاصی نقصان دہ اور ہلاکت میں ڈالنے والے ہیں ،جس طرح مختلف قسم کے زہر سے بدن انسانی متاثر ہوتا ہے اور ہلاکت کا باعث بنتا ہے، ایسے ہی گناہ سے انسانی دل متاثر ہو تا ہے، دنیا وآخرت میں جتنے شرور و بیماریاں ہیں ان سب کا سبب صرف گناہ اور معاصی ہیں ۔(الداء والدواء ،ص:60)
کسی اللہ والے کا قول ہے: ”لاتنظر إلیٰ صغر الخطیئة، ولٰکن انظر إلیٰ من عصیت“․ یعنی تم گناہ کے چھوٹے ہونے کو مت دیکھو، بلکہ تم جس کی معصیت کر رہے ہو اس کی عظمت کوپیش نظر رکھو۔(أخرجہ أحمد في الزھد ، ص : 460،تھذیب الداء و الدواء : 1/54)بشر فرماتے ہیں :”لو تفکر النّاس في عظمة اللّٰہ ما عصوا اللّٰہ عزّ و جلّ “․ اگر اللہ کی عظمت لوگوں کے پیشِ نظر رہے تو وہ اللہ کی نا فرمانی سے باز آجائیں گے ۔ (تفسیر ابن کثیر :2/185)
توبہ کی تعریف
گناہوں اور معصیت سے جس توبہ کا ہم سے بار بار مطالبہ کیا گیا ہے اس کی حقیقت سے واقف ہونا انتہائی ضروری ہے، یاد رکھیں!صرف زبان سے توبہ توبہ کہنا کافی نہیں ،اگر توبہ کی حقیقت نہ پائی جا رہی ہو تو۔
لغت میں توبہ لوٹنے اور رجوع کر نے کو کہتے ہیں ،علامہ رازی نے”مختار الصحاح“ (ص:59)میں اور علامہ فیروز آبادی نے ”القاموس المحیط“(ص:59)میں لکھا ہے :” تاب إلیٰ اللّٰہ“ اور” توبة“ گناہ اور معصیت سے لوٹنے کو کہا جاتا ہے ۔شریعت میں اللہ کی معصیت و نا فرمانی کو ترک کرکے اس کی اطاعت اختیار کر نے کوتوبہ کہتے ہیں ۔
توبہ کی حقیقت اور مراتب
سچی توبہ کے لیے علماء کچھ شرائط ذکر کرتے ہیں ،چناں چہ امام قرطبی فرماتے ہیں : ”ھی الندم بالقلب، وترک المعصیہ فی الحال، والعزم علیٰ ألا یعود الیٰ مثلھا، وأن یکون ذلک حیاءً من اللّٰہ“․ (یقیناً سچی توبہ یہ ہے کہ اس میں یہ درج ذیل چیزیں پائی جائیں ): گناہ پر دل سے ندامت ہو۔ فوری طور پر گناہ کو ترک کرے۔ اور پکا ارادہ کرے کہ دوبارہ اس معصیت کا ارتکاب نہیں کرے گا۔ اور یہ سب کچھ ”اللہ سے حیا“کی وجہ سے ہو ۔(تفسیر القرطبی ، سورة النساء :5/91)
مراتبِ توبہ
توبہ کے تین مراتب ہیں۔ توبہ کا سب سے بڑا اور لازمی درجہ ترک کفراور قبول ایمان ہے۔ اس کے بعد دوسرا بڑا درجہ کبائر(بڑے گناہوں ) سے توبہ کا ہے۔ تیسرا مرتبہ صغیرہ گناہوں سے توبہ کا ہے۔
توبہ کی اقسام
توبہ کی دو قسمیں ہیں:واجب اور مستحب۔
واجب
کسی بھی مامور کے ترک اورمحظور و ممنوع کام کے کرنے سے توبہ کرنا فی الفور واجب اور ضروری ہے اور یہ تمام مکلف اہل ِایمان پر واجب ہے۔
مستحب
مستحبات کے ترک اور مکروہات کے ارتکاب سے توبہ کرنا مستحب ہے ۔(جامع الرسائل لابن تیمیة،رسالة في التوبة :1/227)
سچی اور صحیح توبہ کی شرائط
فوری طور سے معصیت وگناہ سے باز آنا۔
تمام سابقہ گناہوں پر دل سے ندامت ہو، حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : ”الندم التوبة“․ یعنی ندامت توبہ ہے۔ (مسند أبي یعلیٰ، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی الله عنہ ،رقم :4969،5081، 5129)ندامت ہی توبہ کا رکنِ اعظم ہے۔
دوبارہ گناہ کا ارتکاب نہ کرنے کا پکا عزم۔(تفسیر السراج المنیر:2/68)
لوگوں کے حقوق کی ادائیگی ،یا ان سے معاف کرانا۔ (تفسیرابن کثیر:8/169، تفسیر الخازن:7/122) ۔ریاض الصالحین (ص:12) میں امام نووی نے لکھا ہے کہ اگر معصیت کا تعلق آدمی سے ہو تو اس کے لیے چار شرائط ہیں، تین وہ جن کا اوپر تذکرہ ہوا اور چوتھی یہ کہ لوگوں کے حقوق سے خود کو بری کرے ،اگر کسی کا مال یا اس طرح کی کوئی اور چیز لی ہے تو واپس لوٹا دے، اگر کسی پر جھوٹی تہمت وغیرہ لگائی ہے تواس سے معافی طلب کرے یا اس کو ”حد“ پر قدرت دے اور اگر کسی کی غیبت کی ہے تو اس کی بھی معافی مانگے ۔
توبہ نصوح اور سچی توبہ کی پانچویں شرط یہ ہے کہ بندہ اخلاص کو اختیار کرے، یعنی اللہ کے عذاب کے خوف و ڈراور اس کی مغفرت و ثواب کی امید پر گناہوں کو ترک کرے۔
چھٹی شرط یہ ہے کہ توبہ کا عمل ”توبہ کے وقت “ میں ہو ۔
توبہ نصوح کسے کہتے ہیں؟
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندوں کو” توبہ نصوح“ کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَی اللَّہِ تَوْبَةً نَّصُوحًا﴾․(التحریم:8) یعنی اے ایمان والو! توبہ کرواللہ کی طرف صاف دل کی توبہ۔(ترجمہ از:شیخ الہند)
توبہ نصوح سے کیا مراد ہے؟ آئیے! صحابہ ،تابعین،سلف صالحین اور مفسرین کرام کے اقوال کی روشنی میں اس کا جائزہ لیتے ہیں،نصوحاً” النصح“ سے ماخوذ ہے،عربی میں سلائی کرنے کو کہتے ہیں،گویا توبہ گناہوں کی پھٹن کو رفو کر کے ایسے ختم کر دیتا ہے، جیسا کہ درزی اوررفو گرکسی پھٹے ہوئے کپڑے کو سلائی و رفو کر کے اس کی پھٹن کوبالکل ختم کر دیتا ہے،توبہ نصوح کو سچی، خالص اور محکم و پختہ توبہ بھی کہا جاتا ہے،نُصوحاً کو نون کے ضمہ کے ساتھ بھی پڑھا جاتا ہے،ایسی توبہ کو کہا جاتا ہے کہ جس سے آدمی نصیحت حاصل کر ے۔(تفسیر السمعانی:5/477)
امام فراء فرماتے ہیں کہ آیت میں ”نصوحاً “توبہ کی صفت ہے،معنی یہ ہے کہ وہ توبہ اپنے کرنے والے کو اس بات کی فہمائش کرے کہ ان گناہوں کی طرف لوٹنے کو ترک کرے جن سے اس نے توبہ کی ہے اور وہ ایسی سچی اور نصیحت آمیز توبہ ہے کہ کرنے والے اپنے نفس کو گناہوں کی گندگی سے پاک کرتے ہیں۔(تفسیر الرازی،سورة التحریم:1/4490)
امام قرطبی نے لکھا ہے کہ اصلِ توبہ نصوح خالص ہونا ہے،ملاوٹ سے پاک شہد کو” عسل ناصح“ کہتے ہیں،بعض نے کہا کہ یہ نصاحہ بمعنی خیاطہ(سلائی) سے ماخوذ ہے،اس سے اخذ کی دو وجہیں ہیں:
اس توبہ نے اس کی اطاعت الٰہی کو محکم و پختہ کیا ہے جیسا کہ درزی سلائی سے کپڑے کو محکم وپختہ کردیتا ہے۔
اس توبہ نے اسے اللہ کے اولیا کے ساتھ جوڑا، جمع کیا اور ملایا ہے،جیسا کہ درزی سلائی کے ذریعہ کپڑے کے مختلف حصوں کو آپس میں ملا تا اور جوڑ دیتا ہے۔(تفسیر القرطبی:18/199)
حضرت معاذ رضی الله عنہ کے سوال پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ توبہ نصوح یہ ہے کہ بندہ اپنے کیے ہوئے گناہ سے نادم ہو کر اللہ کی طرف یوں بھاگے کہ دوبارہ اس گناہ کی طرف نہ لوٹے، یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس لوٹ جائے۔(الدر المنثور:6/284)
(جاری)