Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1435ھ

ہ رسالہ

7 - 13
معجزات اور مغالطے

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

دلیل عقلی سے ثابت ہو گیا کہ سنت الله میں عموم نہیں ہے، اب ہم آیت کے سیاق وسباق کو دیکھتے ہیں تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس آیت میں لفظ سنت الله میں عموم مراد لیا ہے ان کا یہ فعل ﴿لا تقربوا الصلوٰة﴾ کا مصداق ہے، آیت کا سیاق وسباق صاف بتاتا ہے کہ سنت الله میں عموم نہیں ہے، لفظ سنت الله جن آیتوں میں آیا ہے ہم ان آیتوں کے سیاق وسباق کو مفصل بیان کرتے ہیں، اول آیت ﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً﴾․ یہ سورت احزاب کی آیت ہے، اس کا مضمون یہاں سے شروع ہوتا ہے ﴿لَئِن لَّمْ یَنتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِیْنَ فِیْ قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِیْ الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیْہَا إِلَّا قَلِیْلاً، مَلْعُونِیْنَ أَیْْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیْلاً، سُنَّةَ اللَّہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِن قَبْلُ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً ﴾․ (الاحراب:60۔62)
ترجمہ: ” اگر نہ باز آئیں گے منافقین اور جن کے دل میں روگ ہے اور مدینہ میں بے بنیاد خبریں مشہو رکرنے والے تو البتہ مسلط کر دیں گے ہم آپ کو ان پر ( یعنی ان کی پکڑ دھکڑ کا حکم دے دیں گے) پھر وہ آپ کے قُرب وجوار میں بھی مدینہ میں نہ ٹھہر سکیں گے، مگر بہت کم۔ پھٹکار ے ہوئے، جہاں کہیں بھی ملیں گے پکڑ لیے جائیں گے اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں گے، یہ ہم نے الله کی عادت بیان کی ان لوگوں میں، جو پہلے گزر چکے ( یعنی امم سابقہ میں یہی برتاؤ حق تعالی کا نافرمانوں کے ساتھ رہا ہے ) اور ہر گز نہ پائے گا تو عادت الله کے واسطے تبدیلی۔“

ناظرین انصاف فرمائیں کہ اس آیت میں سنت الله سے مراد عام عادت الہی ہو سکتی ہے یا وہی عادت الہی مراد ہے جو اس قسم کے لوگوں کے ساتھ جن کا بیان اوپر کی آیتوں میں پیشتر ہوئی تھی، یعنی عذاب اتارنا او ران کو تہہ تیغ کرنا اور ذلیل کرنا۔

آیت دوم﴿وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیْلا﴾․یہ سورت فاطر کی آخری رکوع کی آیت ہے، جہاں سے اس کا مضمون شروع ہوا ہے وہاں سے ہم آیتوں کو لکھتے ہیں، وہ یہ ہیں ﴿وَأَقْسَمُوا بِاللَّہِ جَہْدَ أَیْْمَانِہِمْ لَئِن جَاء ہُمْ نَذِیْرٌ لَّیَکُونُنَّ أَہْدَی مِنْ إِحْدَی الْأُمَمِ فَلَمَّا جَاء ہُمْ نَذِیْرٌ مَّا زَادَہُمْ إِلَّا نُفُوراً، اسْتِکْبَاراً فِیْ الْأَرْضِ وَمَکْرَ السَّیِّءِ وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّءُ إِلَّا بِأَہْلِہِ فَہَلْ یَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِیْنَ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَبْدِیْلاً وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّہِ تَحْوِیْلاً﴾․(سورہ فاطر:42۔43)
ترجمہ:” اور قسم کھائی تھی ان لوگوں نے بہت پکی قسم کہ اگر ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا پیغمبر آئے گا تو ہم بعض امتوں سے زیادہ صاحب ہدایت ہوں گے، پس جب ڈرانے والا پیغمبر ان کے پاس آیا تو نہیں زیادہ کیا ان کو مگر نفرت بسبب تکبر کے دنیا میں اور بری قسم کے مکر کے اور نہیں پڑتا ہے برا مکر مگر اس کے کرنے والے پر۔ تو نہیں انتظا رکرتے ہیں وہ مگر پہلے لوگوں کے سے برتاؤ کا تو( یاد رہے ) نہ پائے گا تو حق تعالیٰ کے برتاؤ کے لیے تبدیلی اور نہ پائے گا تو حق تعالی کے برتاؤ کے لیے ٹل سکنا۔“

مطلب یہ ہے کہ ایک وقت میں کفار اس کے لیے تیار تھے کہ پیغمبر ان کے پاس آئے گا تو اس پر تہہ دل سے ایمان لائیں گے، لیکن جب پیغمبر، یعنی محمد صلی الله علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو اپنا عہد وپیمان سب چھوڑ دیا ، حضور سے نفرت کرنے لگے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے خلاف طرح طرح کے مکر کرنے لگے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کفار کی طرح یہ بھی ایسے برتاؤ کے منتظر ہیں جو ہم نے ان کے ساتھ کیا تھا تو یاد رکھیں کہ ہماری عادت کو کوئی بدل نہیں سکتا اور بدلنا تو درکنار کوئی ایک دم کو ٹال بھی نہیں سکتا۔ (اسلا م اور عقلیات،ص:170)

دیکھیے! اس آیت میں بھی سنت الہٰی سے الله تعالیٰ کا وہ برتاؤ مراد ہے جو منکرین رسالت پر عذاب اور ذلالت کی صورت میں نازل ہوا۔

تیسری آیت ہے :﴿فَأَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفاً فِطْرَةَ اللَّہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللَّہِ ذَلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُونَ﴾․ (سورہ الروم:30)
ترجمہ:” تو سید ھا رکھا اپنا منھ دین پر ایک طرف کا ہو کہ وہی تراش الله کی جس پر تراشا لوگوں کو، بدلنا نہیں الله کے بنائے ہوئے کو ،یہی ہے دین سیدھا ( درست)، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔“

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے دین اسلام کو ہر انسان کی فطرت میں ودیعت فرمایا اور اس میں کبھی تبدیلی نہ ہو گی اور فطرت سے مراد وہ قوت واستعداد ہے جس کی وجہ سے انسان باطل سے دور بھاگ کر حق کی طرف مائل ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت اور استعداد ہر جان میں بوقت پیدائش موجود ہوتی ہے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

معلوم نہیں یہاں فطرت اور لاتبدیل لخلق الله سے یہ استدلال کیسے ہو سکتا ہے کہ کائنات میں کوئی خرقِ عادات کام نہیں ہو سکتا؟ آیات کے سیاق وسباق کو چھوڑ کر اپنے تجویز کردہ معنی لینا ایسا ہے جیسے کسی فاقہ کے مارے ہوئے بھوکے سے پوچھا گیا کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں ؟ اس نے کہا چار روٹیاں۔

آٹھواں مغالطہ
معجزہ کی تعریف میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ معجزہ کو قرآنی اصطلاحات میں ” آیة“ کہا جاتا ہے۔ لیکن سر سید کا دعوی ہے کہ قرآن کریم میں” آیة“ بمعنی معجزہ کہیں استعمال نہیں ہوا ہے، چناں چہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”قرآن مجید میں اس لفظ کا استعمال کبھی تو خدا کی جانب سے ہوا ہے، جیسا کہ اس آیت میں ﴿ولقد أنزلنا إلیک آیات بینات﴾ اور کبھی بطور قول کفار یا اہل الکتاب کے ہوا ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے ﴿وَقَالُوا لَوْلَا یَأْتِیْنَا بِآیَةٍ مِّن رَّبِّہ﴾ پس جہاں قرآن میں اس لفظ یعنی آیت، یا آیات ، یا بینات یا آیات بینات کا استعمال خدا کی جانب سے ہوا ہے ،اس سے ہمیشہ وہ احکام یا نصائح اور مواعظ مراد ہیں جو خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے کلام یا وحی کے انبیا پر نازل فرمائے ہیں…

گو مفسرین نے اکثر مقامات میں، بلکہ قریباً کل مقامات میں ان الفاظ سے معجزات ہی مراد لیے ہیں، مگر یہ غلطی ہے ۔“ ( تفسیر القرآن، حصہ اول، ص:131،132، دوست ایسوسی ایٹس)

خلاصہ یہ کہ جہاں لفظ آیت نفی کے ساتھ آئے وہاں معجزہ مراد لیا جائے، جیسے کافروں کا قول ہے:﴿وَقَالُوا لَوْلَا یَأْتِیْنَا بِآیَةٍ مِّن رَّبِّہ﴾ (طہ:133)

(یہ کیوں نہیں لے آتا ہمارے پاس کوئی نشانی اپنے رب سے) اور جہاں اثبات کے ساتھ آئے وہاں آیت قرانیہ،مواعظ ونصائح مراد لیے جائیں۔

جواب
قرآن کریم میں لفظ” آیت“ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔

1...آیت بمعنی آیت قرآنیہ، جیسے الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿مَا نَنسَخْ مِنْ آیَةٍ أَوْ نُنسِہَا نَأْتِ بِخَیْْرٍ مِّنْہَا أَوْ مِثْلِہَا﴾․ (البقرة:106)
(جو منسوخ کرتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو بھیج دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس کے برابر۔)

2...آیت بمعنی نشانی قدرت، لیکن اس کا معجزہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، جیسے:﴿إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَاب﴾․ (آل عمران:190)
(بے شک آسمان اور زمین کا بنانا اور رات اور دن کا آنا جانا، اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو۔)

3... بعض اوقات ایک ہی جگہ پر لفظ ”آیت“ میں دو معنوں کا احتمال رہتا ہے۔ 1.. بمعنی آیت قرآنیہ۔ 2.. بمعنی معجزہ ،جیسے ﴿وَالَّذِیْنَ ہُم بِآیَاتِ رَبِّہِمْ یُؤْمِنُونَ﴾․ (المؤمنون:58) اور جو لوگ اپنے رب کی باتوں پر یقین رکھتے ہیں ) یہاں آیات سے آیات قرآنیہ او رمعجزات دونوں مراد لیے جاسکتے ہیں۔

4... آیت بمعنی معجزہ:
یہی صورت اختلافی ہے ، لہٰذا اس موقع پر ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جہاں اثبات کے موقع پر لفظ آیت معجزے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اس کے علاوہ کوئی معنی مراد ہی نہیں لیا جاسکتا ہے۔
        1...﴿ہَذِہِ نَاقَةُ اللّہِ لَکُمْ آیَة﴾․( الاعراف:73)
                ( یہ اونٹنی الله کی ہے تمہارے لیے نشانی)

جب کافروں نے حضرت صالح علیہ السلام سے معجزے کا مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں ناقة الله کا معجزہ رونما ہوا، اس ناقة الله کو آیت کہا گیا ہے، یہاں آیت کا اطلاق قرآنی آیت پر ہو ہی نہیں ہو سکتا۔

        2...﴿قَالَ إِن کُنتَ جِئْتَ بِآیَةٍ فَأْتِ بِہَا إِن کُنتَ مِنَ الصَّادِقِیْنَ، فَأَلْقَی عَصَاہُ فَإِذَا ہِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْن،وَنَزَعَ یَدَہُ فَإِذَا ہِیَ بَیْْضَاء لِلنَّاظِرِیْن﴾ ․ (الاعراف:106۔108)
                ( بولا اگر تو آیا ہے کوئی نشانی لے کر تو… لا اس کو اگر تو سچا ہے ، تب ڈال دیا اس نے اپنا عصا تو اسی وقت ہو گیا اژدہاصریح اور نکالا اپنا ہاتھ تو اسی وقت وہ سفید نظر آنے لگا دیکھنے والوں کو۔)

کیا یہاں آیت سے کلام الہٰی مراد لیا جاسکتا ہے ؟ ہر گز نہیں۔ کیوں کہ اگر ایسا ہوتا تو حضرت موسی علیہ السلام کوئی آیت پڑھ کر فرعون کا مطالبہ پورا کر دیتے، بلکہ یہاں فرعون نے آیت کا مطالبہ کیا تو جواب میں عملی معجزے کا اظہار کیا گیا، وہ ہے عصا کا سانپ بن جانا اور ہاتھ کا روشن ہو جانا۔

        3...﴿وَقَالُواْ مَہْمَا تَأْتِنَا بِہِ مِن آیَةٍ لِّتَسْحَرَنَا بِہَا فَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِیْن﴾․(الاعراف:132)
                ( اور کہنے لگے جو کچھ تو لائے گا ہمارے پاس نشان کہ ہم پر اس کی وجہ سے جادو کرے ،سو ہم ہر گز تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے۔)

یہاں پر بھی لفظ آیت سے کلام الہی مراد نہیں لیا جاسکتا ،کیوں کہ تورات شریف فرعون کی غرقابی کے بعد نازل ہوئی ہے ، لا محالہ آیت سے معجزہ مراد ہے۔

        4...﴿وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالآیَاتِ إِلاَّ أَن کَذَّبَ بِہَا الأَوَّلُونَ وَآتَیْْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُواْ بِہَا وَمَا نُرْسِلُ بِالآیَاتِ إِلاَّ تَخْوِیْفا﴾․ (الاسراء:59)
                (اور ہم نے اس لیے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں (پہلوں) نے ان کو جھٹلایا او رہم نے دی ثمود کو اونٹنی، ان کے سمجھانے کو، پھر ظلم کیا اس پر او رنشانیاں جو ہم بھیجتے ہیں سو ڈرانے کو۔)

الله تعالیٰ نے کبھی اس لیے اپنا کلام اتارنا موقوف نہیں فرمایا کہ لوگ اسے جھٹلا دیتے ہیں ۔ اگر ایسا ہوتا تو نزول قرآن کا سلسلہ بھی جاری نہ رہتا، اس سے معلوم ہوا کہ اس آیت کریمہ میں آیات سے مراد معجزات ہی ہیں ، لفظ آیات کے ضمن میں ثمود الناقة (قوم ثمود کی اونٹنی) کا ذکر اس پر واضح دلیل ہے۔

        5...﴿وَلَقَدْ آتَیْْنَا مُوسَی تِسْعَ آیَاتٍ بَیِّنَاتٍ فَاسْأَلْ بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ إِذْ جَاء ہُمْ فَقَالَ لَہُ فِرْعَونُ إِنِّیْ لَأَظُنُّکَ یَا مُوسَی مَسْحُورا﴾․ (الاسراء:101)
                (اور ہم نے دیں موسی کو نو نشانیاں صاف پھر پوچھ بنی اسرائیل سے جب آیا وہ ان کے پاس تو کہا اس کو فرعون نے میری اٹکل میں تو موسی! تجھ پر جادو ہوا)

یہاں بھی آیات سے معجزات ہی مراد ہیں کیوں کہ اگر اس سے کلام الہی مراد لیا جائے تو حقیقت کے خلاف ہے، کیوں کہ تورات شریف فرعون کے سامنے نہیں اتری تھی، نیز اس میں صرف نو آیتیں ہی نہ تھیں۔

        6... ﴿وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیَةً وَآوَیْْنَاہُمَا إِلَی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَمَعِیْن﴾․ (المؤمنون:50)
                (اور بنایا ہم نے مریم کے بیٹے اور اس کی ماں کو ایک نشانی۔)

یہاں بھی آیت سے کلام الہی مراد نہیں ہو سکتا ،کیوں کہ اس صورت میں کلام (نعوذ بالله) بے معنی ہو جائے گا۔ لہٰذا یہاں حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کو”آیت“ کہنا معجزے کے اعتبار سے ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کو بغیر ملاپ کے حمل ٹھہرا اور حضرت عیسی علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے اور فوراً بولنے لگے۔

ان آیات کے علاوہ بیسیوں مقامات ایسے ہیں جہاں آیت سے معجزہ ہی مراد ہے۔

نواں مغالطہ
اگر معجزات برحق ہیں تو پھر مشرکین کو ان کے فرمائشی معجزے کیوں نہیں دکھائے گئے؟

جواب
اس کے جواب سے قبل تمہیداً یہ بات سمجھ لیجیے کہ :
1...معجزات انبیاء کا فعل نہیں ہوتے کہ وہ جب چاہیں معجزہ دکھادیں، بلکہ یہ خالص فعلِ الہی کا کرشمہ ہوتا ہے۔
2... الله تعالیٰ کا ہر فعل کسی نہ کسی حکمت ومصلحت سے وابستہ ہوتا ہے اور وہ اپنی مصلحتوں سے بخوبی واقف ہے کہ کون سا فعل کب کیسے او رکہاں ظہور پذیر ہونا چاہیے۔
3... مشرکین معجزات کا مطالبہ صرف اس لیے کرتے تھے کہ ہنسی مذاق کا موقع ملے۔

اس تمہید کے بعد اس کا تفصیلی جواب پڑھیے جو حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله نے ﴿ وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالآیَاتِ إِلاَّ أَن کَذَّبَ بِہَا الأَوَّلُونَ﴾․ ( الاسراء:59)او رہم نے اس لیے موقوف کیں نشانیاں بھیجنی کہ اگلوں (پہلوں) نے ان کو جھٹلایا۔) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ :
”حدیث میں ہے کہ اہل مکہ نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے چند نشانیاں طلب کیں مثلاً یہ کہ ” کوہ صفا“ کو سونا بنا دیجیے یا پہاڑوں کو ہمارے گردوپیش سے ہٹا کر زراعت کے قابل زمین ہموار کر دیجیے، وغیرہ ذلک، ایسا کرو تو ہم آپ کو مان لیں گے۔ اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی، یعنی ایسے فرمائشی نشان دکھلانا خداتعالیٰ کو کچھ دشوار نہ تھا، لیکن پہلے لوگوں کو ان کی فرمائش کے مطابق نشان دکھلائے گئے، تب بھی نہ مانے، بلکہ سرکشی میں اور ترقی کر گئے، آخر سنت الله کے موافق اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بالکل نیست ونابود کر دیے گئے ، اب اگر تمہاری سب فرمائشیں پوری کر دی جائیں او رخدا کے علم میں ہے، بلکہ تمہارے احوال سے بھی ظاہر ہے کہ تم پھر بھی ماننے والے نہیں تو سنت الله کے موافق اس کا نتیجہ وہی استیصال وہلاک کلی ہونا چاہیے، جو اس امت کے حق میں خلاف مصلحت وحکمت ہے ، خدا تعالیٰ کا ارادہ اس آخری امت کی نسبت یہ نہیں کہ گزشتہ اقوام وامم کی طرح عذاب مستأصل (جڑ سے اکھیڑ کر تباہ کرنے والا عذاب) بھیج کر بالکلیہ تباہ کی جائے۔ پہلی امتوں کو فرمائشی نشان دکھلانا اس بنا پر جائز رکھا گیا کہ ان کی بالکلیہ تباہی خدا کے نزدیک اس قدر لائق التفات نہ تھی اور آخر میں آنے والی امت کو کچھ نمونے دکھلانے تھے کہ فرمائشی نشان مانگنے والوں کا حشرایسا ہوتا ہے، چناں چہ اس آیت میں ان ہی تاریخی نظائر کی طرف اجمالی اشارہ فرما دیا کہ اگر فرمائشی نشان دیکھنے کے بعد تکذیب کی ( اور یقیناً کرو گے ) تو جو حشر پہلوں کا ہوا وہ ہی تمہارا ہو گا، لیکن حکمت الہیٰہ مقتضی نہیں کہ تم کو اس طرح تباہ کیا جائے ، لہٰذا فرمائشی نشانات ( معجزات) بھیجنا موقوف کیا گیا۔“ ( تفسیر عثمانی، سورة الاسراء، تحت آیہ رقم:59)

دسواں مغالطہ
الله تعالیٰ نے ہر فعل کے ظہور کے لیے عالم اسباب میں کچھ اسباب مقرر فرمائے ہیں، انہیں اسباب کو اختیار کرنے سے دنیا کا کاروبار چلتا ہے، ”عالم اسباب“ درحقیقت الله تعالیٰ کا فعلی وعدہ ہے کہ یہ سب اختیار کر وگے تو یہ نتیجہ نکلے گا۔ لہٰذا اب ایسے نہیں ہو سکتا کہ کوئی فعل سبب کے اختیار کیے بغیر منظر عام پر آجائے، کیوں کہ اس سے الله تعالیٰ کے فعلی وعدے کی خلاف ورزی لازم آتی ہے اور الله تعالیٰ اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔“ ( دیکھیے تحریر فی اصول التفسیر، سرسید احمد خان، الأصل الثامن الأصل الرابع عشر، ص:21۔31) ․ ﴿إن الله لا یخلف المیعاد﴾․

جواب… ”پہلا مقدمہ یہ ہوا کہ عادت الله (عالم اسباب) وعدہ فعلی ہے، یہ مقدمہ عقلی ہے کہ اپنی عقل سے ان لوگوں نے اس کو اخذ کیا ہے اور دوسرا مقدمہ یہ ہوا کہ الله تعالیٰ کے وعدہ میں رد وبدل نہیں ہو سکتا۔ یہ مقدمہ نقلی ہے، یعنی کلام الہٰی سے ثابت ہے ، اس دلیل کا جواب یہ ہے کہ دوسرے مقدمہ کو تو ہم بلا استثناء کسی بات کے صحیح مانتے ہیں، کیوں کہ کلام الٰہی میں موجود ہے: ﴿ان الله لا یخلف المیعاد﴾ لیکن پہلا مقدمہ ہم کو تسلیم نہیں، یعنی یہ کہ ایک کام ایک خاص طرح پر کچھ عرصے تک ہونے سے وعدہ فعلی ہو جاتا ہے ۔ حق تعالیٰ کی شان تو دوسری ہے، دنیاہی میں انسانوں کو ہم دیکھتے ہیں کہ ساری عمر ایک کام ایک خاص طرح پر کرتے رہے تو اس کو یوں نہیں کہہ سکتے کہ یہ وعدہ ہو گیا اوراس کے خلاف یہ شخص نہیں کر سکتا یاکبھی نہیں کرے گا، ایک حاکم کی عادت ہے کہ بارہ بجے کچہری میں آتا ہے اور فرض کر لو کہ اس کا ہمیشہ کا معمول یہی ہے ،اب اگر وہ ایک دن عملہ والوں سے کہے کہ کل کو ہم دس بجے کچہری کریں گے تو کیاکسی کو یہ کہنا درست ہو گا کہ ہم کل دس بجے نہیں آویں گے؟ کیوں کہ آپ کو ہم نے ہمیشہ بارہ بجے آتا دیکھا ہے تو یہ بارہ بجے آنا آپ کا وعدہ فعلی ہو گیا اور ہم جانتے ہیں کہ آپ وعدہ کے بڑے پابند ہیں، آپ کا وعدہ کوئی معمولی وعدہ نہیں اور آج جو آپ حکم دیتے ہیں کہ کل کو دس بجے کچہری کریں گے ،یہ بالکل ناممکن ہے کیوں کہ ایسے بڑے حاکم کا وعدہ کیسے ٹل سکتا ہے؟

ناظرین! ذرا انصاف سے کہیں کہ کیا یہ جواب عملے والوں کا صحیح ہے؟ او راگر وہ کل کو دس بجے حاضر نہ ہوں تو وہ مجرم ہوں گے یا نہیں ؟ تعجب ہے کہ دنیا میں کوئی بھی اور کسی موقع پر بھی اس مقدمے کونہیں مانتا اور یہ بات محض لچر بھی ہے، لیکن دین کے بارے میں اس لچر بات کو دلیل کا جزبنالیا جاتا ہے اور اس پر ایسا اصرار کیا جاتا ہے کہ جس کا یہ وعدہ فعلی قرار دیا جاتا ہے وہ بھی خود اس کے خلاف کہے تو نہیں مانتے، حق تعالیٰ جا بجا فرماتے ہیں ﴿ان الله علی کل شیء قدیر﴾ اور جا بجا معجزات کی اور قیامت کے واقعات کی اور ملائکہ وغیرہ کی خبر دیتے ہیں تو خود حق تعالیٰ کا تصریح کے ساتھ بیان فرمانا اور اپناقادر ہونا ثابت کرنا تو صحیح نہیں اور ان کا وہ من گھڑت مقدمہ کہ عادت (عالم اسباب) وعدہ فعلی ہے، صحیح ہے؟

ان عقل مندوں سے کوئی پوچھے کہ جب دنیا پیدا ہوئی ہو گی تو اسی طرح یعنی جس طرح اس زمانے میں چار فصلیں ہیں، چاروں فصلیں ہوئی ہوں گی، کیوں کہ ان ہی پر دنیا کا آباد ہونا اور نشو ونما ہونا موقوف ہے ،پھر نہ معلوم کتنے سال تک ایساہی ہوتا رہا ہو گا، موسم برسات میں بارش بھی ہوتی رہی ہو گی، بارش اپنے وقت پر برابر ہوتے ہوئے دیکھ کر اگر یہ اصول مستنبط کر لیا جاتا کہ یہ وعدہ فعلی ہو گیا تو ان کی تقریر کے موافق یہ صحیح تھا، پھر اس کے خلاف کیسے ہو گیا؟ تاریخ میں پڑھیے تو معلوم ہو گا کہ سالہا سال کے بعد کبھی کبھی امساک باران بھی ہوا ہے ، سو جب پہلے پہل ایسا ہوا ہو گا تو وہ وعدے کے خلاف ہوا تو یہ کیسے ہو گیا؟

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مقدمہ ہی غلط ہے کہ کوئی کام دو چار دفعہ ایک طریقہ پر کرنے سے وعدہ فعلی ہو جاتا ہے۔

اب یا تو یوں کہو کہ حق تعالیٰ کے وعدہ میں بھی خلاف ہونا ممکن ہے یا یوں کہو کہ عادت سے وعدہ فعلی ہوتا ہی نہیں۔“ (اسلام اور عقلیات، ص:178)

منکرین معجزہ سے چند سوالات
1...بالفرض اگر یہ مان لیاجائے کہ دنیا کا ہر فعل تعلیل وتسبب کی زنجیروں میں اس طرح جکڑا ہوا ہے کہ اس کی خلاف ورزی خدا بھی نہیں کر سکتا(نعوذ بالله)۔ تو اس پر پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر فعل کے سبب کا بھی کوئی سبب ہوتا ہے یا نہیں ؟ اگر ہوتا ہے تو اس سے تسلسل لازم آئے گا۔ تسلسل کہتے ہیں کہ کوئی شے اپنے سبب کے وجود کے لیے بھی سبب بن جائے ، مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ روٹی کا سبب آٹا ہے اور آٹے کا سبب دانہ اور دانے کا سبب کھیت اور کھیت کے وجودکا سبب دانہ ہوتا ہے تو پھر سوال ہو گا کہ دانے کے وجود کا سبب کیا ہے ؟ جواب ہو گا کھیت یعنی جو کھیت دانے کے سبب سے وجود میں آیا تھا اب وہ خود دانے کے وجود کا سبب بن گیا ،اسے کہتے ہیں تسلسل جو تمام عقلا کے نزدیک باطل او رمحال ہے ۔

لہٰذا اب یہی ایک صورت رہ جاتی ہے کہ اسباب کا سلسلہ ایک جگہ روک دیا جائے اور پہلے سبب کے لیے قدرت الہٰی کے علاوہ کوئی سبب نہ قراردیا جائے، یہاں ہمارا مدعا ثابت ہو جاتا ہے کہ اگر الله تعالیٰ پہلے سبب کو بغیر کسی سبب کے پیدا فرما سکتے ہیں تو اب ان کی قدرت کے لیے کیا چیز مانع ہے کہ وہ بغیر سبب کے کسی فعل کو وجود میں نہ لاسکیں ؟!

2...کیا الله تعالیٰ کی ذات گرامی اس کائنات کو سلسلہ اسباب میں جوڑ کر معطل ہو چکی ہے ،اگر معطل ہو چکی ہے تو قرآن کریم کی ان آیات کی کیا تأویل ہے؟ ﴿إِنَّ اللَّہ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر﴾․ (البقرة:20) بے شک الله ہر چیز پر قادر ہے ۔وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ ﴿فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﴾․ (البروج:16) کر ڈالنے والا جو چاہے، وہ جس چیز کا ارادہ کرے وہ جود میں آجاتی ہے۔ ﴿إِنَّمَا أَمْرُہُ إِذَا أَرَادَ شَیْْئاً أَنْ یَقُولَ لَہُ کُنْ فَیَکُونُ﴾․ (یسین:82) ( کرنا چاہے کسی چیز کو تو کہے اس کو ہو۔ وہ اسی وقت ہو جائے۔)

اگر صاحب قدرت ہے تو اس کا دائرہ کہاں تک پھیلا ہوا ہے؟ اورکب تک ہے؟

3... اگر سلسلہ اسباب میں حرکت پذیری کی صلاحیت ذاتی ہے تو پھر ان کا نتیجہ ایک ہی کیوں نہیں نکلتا؟ مثلاً زہر ہمیشہ ہلاکت کا موجب بنتا ہے، لیکن کبھی کبھی یہی زہر تریاق کاکام بھی کر جاتا ہے، اسی طرح ایک درخت، ایک ہی آب وہوا میں نشو ونما پاتا ہے، لیکن اس کے پھلوں کا ذائقہ کیوں مختلف ہوتا ہے ؟ سورج کی دھوپ ہر تری کو خشک کرتی ہے، لیکن وہی دھوپ گنے میں رس پیدا کرتی ہے ۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اسباب کا نتیجہ یکساں کیوں نہیں رہتا؟

خلاصہ بحث
1...معجزات وخوارق عادات امور خلاف عقل نہیں، خلاف عادت ضرور ہیں۔ ( شرح العقائد النسفیة، مبحث النبوة، ص:135)
2...الله تعالیٰ نے کائنات کو سلسلہ اسباب میں جوڑ رکھا ہے، لیکن اسے اپنے اوپر واجب اور لازم قرار نہیں دیا۔ (دیکھیے، المسامرة، شرح المسایرة الأصل الرابع فی بیان انہ لایجب علی الله تعالیٰ فعل شیء ، ص:155، بیروت)

اس لیے کہیں کہیں الله تعالیٰ اپنی مرضی اور مصلحت سے اس نظام کی مخالفت بھی کر دیتے ہیں، جس سے معجزات اور خرق عادات امور کا ظہور ہوتا ہے۔

﴿وَإِذْ قُلْتُمْ یَا مُوسَی لَن نَّصْبِرَ عَلَیَ طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّکَ یُخْرِجْ لَنَا مِمَّا تُنبِتُ الأَرْضُ مِن بَقْلِہَا وَقِثَّآئِہَا وَفُومِہَا وَعَدَسِہَا وَبَصَلِہَا قَالَ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِیْ ہُوَ أَدْنَی بِالَّذِیْ ہُوَ خَیْْرٌ اہْبِطُواْ مِصْراً فَإِنَّ لَکُم مَّا سَأَلْتُمْ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْکَنَةُ وَبَآؤُوْاْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّہِ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ کَانُواْ یَکْفُرُونَ بِآیَاتِ اللَّہِ وَیَقْتُلُونَ النَّبِیِّیْنَ بِغَیْْرِ الْحَقِّ ذَلِکَ بِمَا عَصَواْ وَّکَانُواْ یَعْتَدُونَ﴾․ (البقرہ، آیت:61)
”اور جب کہا تم نے اے موسی! ہم ہر گز صبر نہ کریں گے ایک ہی طرح کے کھانے پر، سو دعا مانگ ہمارے واسطے اپنے پروردگار سے کہ نکال دے ہمارے واسطے جو اگتا ہے زمین سے ترکاری اور ککڑی او رگیہوں اور مسور، جو اور پیاز۔ کہا موسی نے کیا لینا چاہتے ہو وہ چیز جو ادنی ہے اس کے بدلہ میں جو بہتر ہے؟ اترو کسی شہر میں تو تم کو ملے جو مانگتے ہو۔ اور ڈالی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور پھرے الله کا غصہ لے کر ،یہ اس لیے ہوا کہ نہیں مانتے تھے احکامات خداوندی کو اور خون کرتے تھے پیغمبروں کا ناحق، یہ اس لیے کہ نافرمان تھے اورحد پر نہ رہتے تھے۔

تفسیر
بنی اسرائیل پر الله تعالیٰ نے خصوصی انعامات کیے، جس کا نتیجہ یہ نکلنا چاہیے تھا کہ یہ الله تعالیٰ کے فرماں بردار اور شکر گزار بندے بنتے، لیکن انہوں نے اس کے برعکس ہمیشہ نا فرمانی اور کفر ان نعمت کا وطیرہ اپنایا ،ان کے لیے اعلیٰ قسم کا کھانا من وسلویٰ اتارا، جو کسی معاشی جدوجہد کے بغیر انہیں مل جاتا تھا، لیکن انہوں نے ادنیٰ قسم کے کھانوں کا مطالبہ کر دیا کہ ہمیں دال، پیاز اور سبزیاں وغیرہ چاہیے۔ الله تعالیٰ نے انہیں ایک ایسے شہر میں جانے کا حکم دیا، جہاں یہ چیزیں معاشی جدوجہد سے مل سکتی تھیں کہ وہاں جاکر پسند کی چیزیں کھاؤ۔ ان کی بے حسی، ہٹ دھرمی، ناشکری کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ یہ خدائی میزبانی پر دال وپیاز کو ترجیح دینے لگے، ان کر توتوں کی بدولت الله تعالیٰ نے ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی، قرب قیامت تک انہیں کبھی اقتدار نصیب نہیں ہو سکتا اگر ہو گا تو صرف کچھ لوگوں کے غیرمعمولی تحفظ دینے سے ہو گا، چنا ں چہ سورة آل عمران میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّةُ أَیْْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاس﴾․ (آل عمران:113)

ترجمہ: ”ماری گئی ان پر ذلت جہاں دیکھے جائیں سوائے دست آویز الله کے اور دست آویز لوگوں کے۔“ یعنی ان کو خود مختاری اور اقتدار اس وقت نصیب ہو سکتا ہے یہ الله کی رسی کو پکڑ لیں یا پھر لوگوں کی رسی کو تھام لیں، الله کی رسی کے تویہ قریب بھی نہیں جاتے، البتہ لوگوں کی رسی تھام رکھی ہے، یہودیوں کا نام نہاد ملک اسرائیل وامریکی یورپی پناہ کے باوجود زندگی کی آخری سانس لے رہا ہے، اگر ایک لمحے کے لیے بھی امریکہ و یورپ ان سے اپنا ہاتھ اٹھالے تو ان کا اقتدار اور ملک ایک افسانہ بن جائے۔

الله تعالیٰ نے اس واقعے سے بتلا دیا کہ جو قوم دین پر عمل پیرا ہو جاتی ہے تو ہم اسے شانِ حاکمیت سے نواز دیتے ہیں اور جو قوم دین کو مذاق بنا لیتی ہے اس پر غلامی کا طوق ڈال دیتے ہیں۔

﴿ذلک بأنھم﴾… الخ
یہودیوں پر لعنت اور ذلت مسلط کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کو راہ راست پر لانے کے لیے انبیائے کرام تشریف لائے تو یہ انہیں قتل کر دیتے، انسانوں کی جانوں او ران کے اموال کو تلف کرنا ان کا قومی مذاق بن چکا تھا۔
(جاری)
 

Flag Counter