العلیم جل جلالہ
ڈاکٹر محمد اشرف کھوکھر
ایک طرف جدید تعلیم یافتہ طبقہ ہے جو اپنے ہاتھوں اپنے اسلامی تشخص کو تباہ وبرباد کررہا ہے تو دوسری طرف بے علمی کی گھپ اندھیری رات میں ناخواندہ ٹامک ٹوٹیاں ماررہے ہیں۔ ایک طرف امراء طبقہ کی اولاد سگریٹ کے دھوئیں میں اپنے اسلاف کی عظمت رفتہ کو برباد کررہی ہے تو دوسری طرف دینی مدارس کے طلباء اپنی مفلوک الحالی کے باوجود علمی تشنگی بجھانے کی سر توڑکوششوں میں مشغول …دونوں کا ذمہ دار کون ہے؟ اصحاب اقتدار یا معاشرہ؟
اَلْعَلِیْمُ جل جلالہ:العلیم،علم سے ہے جس کے معنی ہیں جاننے والا،العلیم اللہ رب العزت کے صفاتی ناموں میں سے ایک ہے، جس کے معنی ہیں ظاہرو باطن کا جاننے والا، جس کاعلم ہر چیز پر محیط ہے، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں ،قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے ﴿عالم الغیب والشھادة﴾․ (انعام:83) ”وہ غیب اور ظاہر دونوں کو جاننے والا ہے۔ “ اللہ رب العزت تخلیق کائنات اور اس کے ماضی وحا ل اور مستقبل کا علم رکھنے والا ہے، یعنی علیم ہے ۔کائنات کا مسحور کن حسن ایک نقطہ سے شروع ہو کر لکیر کی صورت میں قوس اور دائروں میں ڈھل کر جمالیاتی نقش ونگار میں رموز سے پردہ اٹھانے کی جستجو اور حقیقت تک پہنچنے کا داعیہ پیدا کرتا ہے۔
یہ سب انسانی فطرت میں اللہ علیم وخبیر نے ودیعت کیا ہوا ہے، انسان کو شرف وعزت اور فضیلت علم کی بنا پر عطاکی گئی اور اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ۔
جو پایاعلم سے بشر نے فرشتوں نے وہ نہ پایا
یہ یاد رہے کہ انسانی حواس وادراک محدودہیں ،اس لیے حواس خمسہ سے حاصل کیے گئے علم سے حتمی نتائج تک پہنچنا ممکن نہیں ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے جہاں کائنات کی تمام چیزوں کو انسان کی خدمت کے لیے پیدا فرمایا، جہاں انسانی اجسام کی نشوونما کے اسباب پیدا فرمائے، وہاں اس کی روح کی بالیدگی کا بھی بہترین انتظام فرمایا ہے ،جہاں اللہ رب العزت نے انسان کو اعلیٰ ترین صفات عطاکر کے کائنات کی تحقیق میں چھپی حکمت کو مسخر کرنے کا داعیہ پیدا فرمایا ہے ،وہاں جبلی علوم کے ساتھ ساتھ آسمانی ہدایت ورہنمائی کا بھی انتظام فرمایا ہے ،ایک لاکھ چوبیس ہزار کم وبیش انبیاء علیہم السلام کو انسانیت کی ہدایت وراہ نمائی کے لیے وقتاًفوقتاً،موقع کی مناسبت سے، مختلف ادوار میں، مختلف قوموں کی طرف مبعوث فرمایا۔
یہاں تک کہ رسول آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام بنی نوع انسان کے لیے، تا قیام قیامت ،معلم کتاب و حکمت بناکر مبعوث فرمایا،اب دارین کی کام یابی و کامرانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر پرُ خلوص عمل کرنے میں مضمر ہے۔
اسلامی علوم کا نقطہ آغاز علم القرآن سے ہوا ہے،قرآن کے علاوہ تمام تحریر وں کا بتدریج بے اثر ہونا ان کی قسمت ہے،ماضی میں تبدیل ہونے والا ہر لمحہ اور کائنات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھانے کی ہر انسانی جستجو اور انسانی جہد مسلسل کا نتیجہ قرآن کی حقیقت کا بار بار زندہ اور قائم و دائم ہونے کا ثبوت مہیا کرتا ہے ۔مکہ مکرمہ کے غار حرا میں سب سے پہلی وحی و نزول قرآن کا آغاز جن آیات سے ہوا۔ان میں انسان کو اپنی پیدائش، مقام ومرتبہ پر غور و فکر کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔جس میں فرمایا گیا کہ :
ترجمہ :”تو اللہ کا نام لے کر پڑھ، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، تو پڑھ کہ تیرا رب بڑا عزت والا ہے، جس نے انسان کو قلم کے ذریعے علم سکھایا اور وہ کچھ بتلایا جو وہ نہیں جانتا تھا“۔(سورہ علق)
معلم کتاب و حکمت کے ذریعے العلیم جل جلالہ نے تمام بنی نوع انسان کو علم کی فضیلت مقام و مرتبہ سمجھایا ہے کہ انسانی قدرومنزلت کا حقیقی معیار علم ہے اور حقیقی علم کا منبع ،مرکز ،محور قرآن کریم ہے۔یاد رہے کہ علوم اور فنون میں فرق ہے ۔علوم میں عقائد،عبادات ،معاملات ، معاشرت اور اخلاق شامل ہیں، جب کہ فنون مین قدیم وجدید عصری علوم شامل ہیں۔علم کے ماخذ1. قرآن 2. سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم 3. اجماع صحابہؓ 4. قیاس ہیں ۔مشاہدہ ہے کہ علوم ہم تک براہ راست نہیں پہنچے، مثلاً قرآن مجید، جو مرکز ومحور علم ہے اسے براہ راست اللہ رب العزت نے بیک وقت آسمان سے کتاب کی شکل میں نہیں اتارا، بلکہ رسول آخرالزماںصلى الله عليه وسلم پر23 سال کے عرصہ میں وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق بذریعہ جبریل امین عليه السلام رسول اللہ صلى الله عليه وسلم پر نازل فرمایا اور بالآخر دین مکمل فرما دیا اور تکمیل دین کا واضح اعلان کردیا گیا۔
ہمارے پاس قرآ ن مجید فرقان حمید جن صحت مند، بالغ نظر اور دیانت دار ذرائع سے پہنچا ہے ان کی تقلید ضروری ہے۔چودہ سوچونتیس سال کے عرصہ میں قرآن کی امانت سینہبہ سینہ ہم تک پہنچی ہے اور ہم بھی اس قرآن کی امانت کو دوسروں تک پہنچانے کے مکلف ہیں۔اللہ رب العزت نے تاقیام قیامت دین کا کام لینا ہے، جس سے وہ جتنا چاہے، اس لیے کہ اس کی حفاظت کا ذمہ العلیم جل جلالہ نے خود لیا ہے ۔
ترجمہ:”اور ہم نے اس قرآن کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں “۔
علم اور علمائے حق کے مقام و مرتبے کو علیم و کبیر رب نے قرآن مجید میں متعدد جگہ ذکر فرمایا ہے۔
ترجمہ:”کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟“
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وارث قرار دیا ہے، فرمایا”العلماء ورثة الانبیاء“․علما انبیا کے وارث ہیں۔دوسری جگہ علماء کو بنی اسرائیل کے انبیا سے تشبیہ دے کر فرمایا۔
”میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیا کی طرح ہیں۔“علم اور علماء کا مقام ومرتبہ اس مختصر مقالہ میں ہم بیان کرنے سے قاصر ہیں،مقصود العلیم جل جلالہ کی اپنی علمی بساط کے مطابق توضیح وتشریح بیان کرناہے۔
دین ودنیا کی تعمیر وترقی علوم قرآن اور حاملین قرآن کی محنت، مشقت اور جہد مسلسل کی مرہون منت ہے، یہی وجہ ہے کہ اسلام کا سب سے پہلا نشانہ علمائے حق ہیں۔تاکہ علماء ومدارس قرآن کی بنیاد ہی کو ختم کرکے کرہ ارض پر طاغوتی طاقتوں کا قبضہ ہواور من مانے اصول وضوابط خود ساختہ عصری فنون کے ذریعے حق کو نیست ونابود کردیں۔
قرآن و سنت کی بالا دستی کو قائم کرنے کے اہل علمائے حق ہیں لیکن انتہائی بدنصیبی کی بات ہے کہ ہر طاغوتی قوت کا پنجہ سب سے پہلے علمائے حق پر پڑتا ہے۔ماضی قریب و بعید کے حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ علمائے حق ہی ظلم و تشدد کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔
یہود و نصاریٰ اور دیگر اسلام دشمن اقوام عالم کی عصری فنون کے ذریعے امت مسلمہ کو مرعوب کر کے ان کی دینی عزت و حمیت کو ختم کرنے کی کسی طرح بھی جسارت کبھی بار آور نہیں ہوگی ۔(انشاء اللہ)
عصری فنون کے ذریعے انسان نے دریاؤں و سمندر کو مسخر کر لیا، ہوا، فضا،چاند اور مریخ،دیگر سیار گان کو مسخر کرلیا ،زمین کے اندر چھپے خزینوں اور دفینو ں کو نکال کر اپنے کام میں لگا لیا ہے۔القا،بیٹا ،گاما شعاعوں کے ذریعے علاج و معالجے کے نئے طریقے ایجاد کر لیے، لیکن انسان کو اس مادی ترقی کے حصول کے لیے جس چکی میں پیسا جارہا ہے اس سے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیاوی تعمیر و ترقی ہی انسانی زندگی کا مقصد وحید ہے۔
دنیا کے جہاں دیدہ دانش وروں،مفکروں اور مدبروں سے ایک سوال ہے کہ انسان کی تما م تر جدوجہد کا نصیب العین انسانی حیات کی تعمیر و ترقی ہییاکہ دنیا کے درودیوار کی ترقی؟اگر تو دین و دنیا ہر دو کی ترقی مقصود ہے تو بہت بہتر اور اگر اس کے برعکس ہے تو تمام تر فنون کی ترقی کو ترقی معکوس کہنا بہتر ہوگا۔اور پھر اس نام نہاد ترقی سے وہ زمانہ لاکھ درجہ بہتر تھا کہ جس میں قرآن و سنت کا دور دورہ تھا۔ ہمیں آج سے چودہ سو سال قبل دور نبوت کے ماہ وسال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ #
تری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
عصر حاضر میں علوم کے اصل ماخذ سے روگردانی اور عصری علوم وفنون پر تمام تر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے یہودونصاریٰ کی تقلید میں الیکٹرونک میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے ،دینی ،مذہبی،اخلاقی تعمیر کے بجائے نسل نومیں،تخریبی،اخلاق سوختہ عادات و اطوار کو پروان چڑھایا جارہاہے۔امت مسلمہ کے نوجوانوں کو تعمیری جدوجہد کے بجائے زیادہ تراخلاق سوختہ فلموں اور الیکٹرونک کھیل کود میں اوقات کو ضائع کیا جارہاہے، ان تمام تخریبی عوامل واسباب کے ذمہ دار نہ صرف معصوم اذہان کی حامل نسل نو ہے، بلکہ اس میں والدین اور اساتذہ کا کردار بھی شامل ہے، جو نسل نو کو حقیقی علوم کے حصول اور قوانین اصول وضوابط کے مطابق تعمیر حیات کے بجائے تخریب کی طرف لے جارہے ہیں۔
اللہ رب العزت علیم وخبیر ذات،امت مسلمہ کو علوم حقیقی کے منبع ومحور ،مرکزاور سر چشمہ ہدایت، یعنی قرآن وسنت کی طرف رجوع کرنے کی توفیق بخشے ۔(آمین)
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی حواس وادراک سے حاصل کیا گیا علم مستند نہیں ہوتا، جس طر ح ہم بیرونی محرک روشنی کے بغیر اندھیرے کمرے میں کوئی چیز دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارا دماغ ،حواس وادراک اور اس کے نتیجے میں حاصل کیے گیے نتائج حتمی نہیں ہوسکتے ،لہذا ہمیں علوم کے اصل محور اور مرکز کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔یعنی قرآن وسنت کی بالادستی کا استحکام ہی دارین کی فوز وفلاح کی ضمانت مہیا کرے گا۔
جہاں بانی سے ہے دشوار کار جہاں بینی
جگر خون ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
(اقبالؒ)
سر زمین حجاز کی بے آب وگیاہ وادی میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مرکز وحدانیت ”کعبة اللہ“ کی تکمیل کے بعد بارگاہ رب العزت میں خضوع وخشوع سے دعائیں مانگیں ،جن میں علم کا ذکر ہے ۔آپ علیہ السلام کی دعائیں مستجاب ہوئیں۔آپ علیہ السلام کی اولاد میں سے آخری نبی ورسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تاقیامت قیاد ت تمام بنی نوع انسان کے لیے مبعوث فرمایا گیا۔معلم کتاب وحکمت پر نازل ہونے والی سب سے پہلی سورہ علق کی ابتدائی پانچ آیات میں علم کا ذکر ہے۔بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت مکہ کے صرف سترہ افراد لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔
علم کی اشاعت کے بنیادی ذرائع دو ہیں. 1.. زبان 2..قلم۔ پہلی وحی میں فرمایا ﴿علم بالقلم﴾ اوراس طرح سورة الرحمن میں ارشاد ہوا ﴿علمہ البیان﴾ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی وحی کے ساتھ اپنے مخاطب صحابہ کرام، جن کی تعداد چالیس تھی ، سے ترویج علم کا سلسلہ جاری فرمایا۔
اہل مکہ کے جبرواستبداد سے تنگ آخر بحکم خدا مکہ سے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی ۔تعمیر مسجد نبوی کے ساتھ ایک طرف ایک سائباں (چبوترہ)جسے ”صفہ“کہتے ہیں بنایا گیا ،جہاں بے ٹھکانہ مہاجر دور دراز سے آئے ہوئے طلبا قیام کرتے اور پڑھنا لکھنا سیکھتے اور کسب حلال میں بھی مصروف رہتے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت ابو سعید خدری،حضرت ابوذرغفاری،حضرت سلما ن فارسی ،حضرت خبیب رومی،حضرت ابوھریرہ، حضرت بلال حبشی اور حضرت حنظلہ بن ابی عامر رضی اللہ عنہم جیسے عظیم صحابہ کا شمار اصحاب صفہ میں ہوتا ہے ۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام کے دو حلقے موجود تھے۔ایک حلقے کے لوگ نفل نمازوں میں مصروف تھے، جب کہ دوسرے حلقے میں درس و تدریس ہورہا تھا۔ دونوں حلقوں کے لوگوں نے ملتجیانہ نظروں سے دیکھا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درس و تدریس کے حلقہ کو شرف ہمنشینی سے نوازا۔ جب پہلی اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آگیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اطراف وجوانب سے سربراہو ں کے خطوط آنے لگے، جو عبرانی اور سریانی زبانوں میں ہوتے تھے ۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے صحابہ کرام کو ان زبانوں پر عبور حاصل کرنے کی ترغیب دی۔جنگ بدر کے قیدیوں نے زرفدیہ کے معاوضہ میں مدینہ کے دس دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا۔حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”رشک بس دو آمیوں پر ہونا چاہیے، ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور س نے حق کے کاموں میں صرف کیا۔دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت، یعنی علم دین سے نوازا اور وہ حکمت کے ذریعے فیصلے کرتا ہے اور حکمت کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ارشاد رسول صلى الله عليه وسلم کا مفہوم :
”اے ابو ہریرہ! قرآن سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ اور جب تک تم کوموت آئے اس میں مشغول رہو۔اگر تم کو اس حالت میں موت آئی تو سمجھو کہ تمہاری قبر پر فرشے اس طرح آئیں گے جس طرح لوگ حج بیت اللہ کو جاتے ہیں ۔“
العلیم جل جلالہ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا۔
ترجمہ:”خدا سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں“ ۔(سورہ فاطر ع: 14)
حضرت ابی ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول آخرین ا نے فرمایا:
ترجمہ:”انسان جب مرجاتا ہے تو اس کے عمل کا ثواب کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ، مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے ۔صدقہ جاریہ ،علم جس سے نفع حاصل کیا جائے ۔صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لیے دعاکرے “۔(مشکوٰة،باب العلم :32)
ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ :”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنیٰ امتی پر“۔کبھی فرمایا۔”میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں“۔
علم دین ہم تک براہ راست نہیں پہنچا، بلکہ چودہ سو سال سے علمائے حق نے بے شمار مشقتیں،کلفتیں،صعوبتیں برداشت کیں اور علم کی امانت کو ہم تک پہنچایا ہے ۔امام بخاری ، جن کی صحیح بخاری کو”اصح الکتاب بعد کتاب اللہ“ہونے کا شرف حاصل ہے انہوں نے زمانہ طالبعلمی میں غربت کے سبب جنگل کی جڑی بوٹیاں کھا کر گزارہ کیا۔(فتح القدیر)
حافظ الحدیث حجاج بغدادی تحصیل علم کے لیے نکلے تو عفت مآب ماں نے 100روٹیاں دیں،اس وقت تک علم حاصل کرتے رہے جب تک زادراہ موجود رہا، جب ختم ہوا تو اپنے مشفق استاد کا دروازہ چھوڑنا پڑا۔ (تذکرہ الحفاظ)
#فن حدیث کے عظیم امام ابو حاتم رازی نے 14 بر س بصرہ میں انتہائی تنگ دستی اورعسرت میں گزارے، یہاں تک کہ علم دین کے لیے اپنے مستعمل کچھ کپڑے بیچ دیے۔ امام ابو حاتم رازی نے حصول علم کے لیے ہزاروں میل کا سفر طے کیا ۔امام ابن جوزی معروف محدث گزرے ہیں، ان کے بقول انہوں نے دو ہزار جلدیں اپنے ہاتھ سے لکھیں۔
امام مالک،امام احمد بن حنبل،امام شافعی اور دیگر ائمہ کرام اور علمائے حق علم کے حصول اور علم کے تحفظ کے لیے اگر مشقتیں نہ اُٹھاتے اور ہزاروں میل سفر کر کے ایک ایک حدیث مبارکہ جمع نہ کرتے تو نہ جانے ہم آج کیا ہوتے؟؟
گرمی ،سردی،بھوک،پیاس کی شدت برداشت نہ کرتے تو علم کی امانت ہم تک نہ پہنچتی ۔امام مالک کو وقت کے حکم رانوں کی خوشامد نہ کرنے کی پاداش میں ستر کوڑے مارے گئے۔اونٹ کی ننگی پیٹھ پر پور ے شہر کا گشت کرایا گیا۔
امام احمد بن حنبلپر خلق قرآن کے مسئلہ میں مامون،معتصم اور واثق تین خلفاء کے عہد میں مصیبتو ں کے پہاڑ توڑے گئے۔ظلم و ستم کی چکی چلائی گئی،کبھی ہتھکڑیوں، بیڑیوں اور بھاری زنجیروں میں جکڑ ا گیا ۔تازہ دم جلاد ننگی پیٹھ پردرے مارتے جاتے اور درندگی کی انتہا کر دی جاتی ۔لیکن قربان جائیے علمائے حق کی استقامت پر کہ ان کے پائے استقامت میں ذرا بھی لغزش نہ آئی ۔
برصغیر پاک وہند کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انگریزی سامراج نے اسلامی عقائد کو بگاڑنے اور اسلامی تاریخ کو مسخ کرکے اپنے اقتدار کو طویل کرنے کے لیے مختلف فتنے کھڑے کیے، جن میں فتنہ قادیانیت سرفہرست ہے ، شیخ الہند محمود حسن ،سیدحسین احمد مدنی سید احمد شہید ،سید عطااللہ شاہ بخاری رحمہم اللہ تعالیٰ کی سوانح حیات پڑھیے،جیلوں،کالے پانی کی سزاؤں، درختوں اور پھانسی گھروں سے پوچھیے کہ وہ عظیم انسان کون تھے؟جنہوں نے حق کا بو ل بالا کرنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا:
خوشا وہ آبلہ پا کاروان اہل جنوں
لٹا گیا جو بہاروں پہ اپنی سرخی خون
ہمارے پاس کائنات کی سب سے بڑی امانت ہے۔کتاب اللہ کی امانت ہے،سنت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ہے،صحابہ کا اثاثہ،اولیاء واتقیاء کا راہ سلوک ہے۔ہمسیم و زرکے انبار،وزارت و حکومت، کوٹھی،بنگلوں کو انبیا علیہم السلام کی وراثت پر ترجیح قطعاً نہیں دیتے ہیں ۔ہم نبی کی وراثت، پیام نبوت کی دعوت ۔دین کی صداقت و حقانیت کو سلام کرتے ہیں،تحفظ ناموس رسالت، تحفظ ناموس صحابہ کی حفاظت ،سعید بن جبیر کی عزیمت ،امام ابو حنیفہ کی حقانیت ،امام مالک کی حق گوئی دبے باکی،امام احمد بن حنبل کی استقامت ،امام ابن تیمیہ کی جرأت ،مجدد الف ثانی کے جہد مسلسل، شاہ ولی اللہ کی بصیرت ،سیدا حمد شہید اور سید اسماعیل شہید کی شہادت ،قاسم نانوتوی کے علم و حکمت ،شیخ الہند کی دینی غیرت و حمیت ،مولانا محمد الیاس کی دعوت و تبلیغ ، مولانا عبید اللہ سندھی کی تڑپ حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی عظمت اور شوق شہادت ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی فصاحت و بلاغت،حضرت مولانا احسان احمد شجاع آبادی کی شجاعت ،مولانا لال اختر کی حق گوئی دبے باکی،سید محمد یوسف بنوری کی استقامت اورحضرت مولانا محمدیوسف لدھیانوی اور حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان کی شہادت کو سلام کرتے ہیں۔ زہے نصیب کہ العلیم جل جلالہ نے علمائے حق کو انبیاء علیہم السلام کی حقیقی وراثت کا وارث بنایا اور انہوں نے اسی بار امانت کو ہم تک پہنچانے میں اپنا سب کچھ قربان کردیا۔بقول خلیفہ حافظ غلام رسول ۔
قربانت شوم ایں مرتبہ عظیم است
بقول شاعر:
یہی ہیں جن کے سونے کو فضیلت ہے عبادت پر
انہی کے اتقاء پر ناز کرتی ہے مسلمانی
انہی کی شان کو زیبا نبوت کی وراثت ہے
انہی کا کام ہے دینی مراسم کی نگہبانی
رہیں دنیا میں اور دنیا سے بے تعلق ہوں
پھریں دریا میں اور ہرگز کپڑوں کونہ لگے پانی
اگر خلوت میں بیٹھے ہوں تو جلوت کا مزہ آئے
اور آئیں اپنی جلوت میں تو ساکن ہو سخندانی
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ملک وقوم کی ترقی کا دارومدار علم پہ ہے، جو قوم جتنی تعلیم یافتہ اور اس علم نافع پر عمل کرنے والی ہوگی وہ اتنی ہی زمانے میں معزز ہوگی، لیکن انتہائی بدنصیبی یا بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم اور علم دونوں کا فقدان ہے ۔شہروں کے باسی عصری تعلیم یافتہ ،مغرب کی اندھی تقلید میں اپنے اسلامی تشخص کو خود اپنے ہاتھوں ختم کرنے کے درپے ہیں تودوسری طرف دیہاتوں میں ناخواندگی کا دور دورہ ہے،اس کے ذمہ دار ملک کے اصحاب اقتدار ہوں یا معاشرہ، بہر حال امارت و غربت کے معیار کی بجائے تعلیم اور صلاحیتوں کے معیار پر پورا اترنے والوں کو ملک و قوم کی ترقی میں حصہ دار بنایا جائے۔ملکی ترقی میں شامل کرنے کے لیے رشوت کی لعنت کے عمل دخل کو روکا جائے تو کچھ بعید نہ ہوگا کہ ہمارا معیار تعلیم بلند ہو اور ہم دین و دنیا کی فلاح کی طرف گام زن ہوں ۔
میں، آپ اور ہم سب علم دین کو دوسروں تک پہنچانے والے ہیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ”بلغواعنی ولو آیة“ اسی طرح علم کو دوسروں تک پہنچانے والوں کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دعا دی ہے۔ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ:
”اللہ اس کو تروتازہ رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور جیسی سنی ویسے ہی پہنچادی، کیوں کہ بہت سے وہ لوگ جن کو بات پہنچائی گئی، (اصل)سننے والوں سے زیادہ محفوظ رکھنے والے ہیں “۔
اللہ علیم و خبیر ہمیں علم نافع سے بہرہ مند فرمائے اور دین و دنیا کی کام یابیوں سے ہمکنار فرمائے۔ ”اللّٰھم نور قلبی بعلمک، واستعمل بدنی بطاعتک“(آمین)