عربی تفاسیرکے ترجمے…تعارف و تجزیہ
مولانا اشتیاق احمد، دارالعلوم دیوبند
”ترجمہ“مستقل ایک فن ہے، مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اس کی ضرورت واہمیت مسلم ہے،تراجم کی مختلف اصناف میں مذہبی تراجم سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں؛اس لیے کہ ایک سروے کے مطابق دنیا بھر کے من جملہ تراجم کی خدمات میں نصف سے زائد خدمات مذہبی تراجم پر مشتمل ہیں۔قرآنِ پاک کا ترجمہ سب سے پہلے لاطینی،پھر فرانسیسی اورپھر انگریزی میں ہوا،ایک سروے کے مطابق دنیا میں چھ ہزار پانچ سو(6500)زبانیں بولی جاتی ہیں،ان میں سے دو ہزار تین سوپچپن (2355)زبانوں میں انجیل کا ترجمہ ہو چکا ہے اور مسلمان تجزیہ نگاروں کا دعویٰ ہے کہ قرآن مجید کا ترجمہ دنیا کی اکثر زبانوں میں ہوچکا ہے،اردو زبان آج سے چھ سات صدی پہلے وجود میں آئی،ترجمہ کی روایت اس میں دوسوسال بعد شروع ہوئی،اس زبان میں سب سے پہلے”تمہیداتِ عین القضاة“کاترجمہ”تمہیداتِ ہمدانی“کے نام سے شاہ میراں جی خدانمانے1603ء میں کیا،اردو زبان میں قرآنِ مجید کا سب سے پہلا ترجمہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ کے فرزندِار جمند شاہ رفیع الدین صاحبنے 1776ء میں کیا،اس وقت اردو زبان کی نثر اچھی خاصی صاف،سادہ اور رواں ہو گئی تھی،لیکن وہ ترجمہ خاصا لفظی تھا؛اس لیے ان کے حقیقی چھوٹے بھائی حضرت شاہ عبدالقادر صاحب نے1798ء میں اس وقت کی فصیح و بلیغ رائج ومستند ٹکسالی زبان میں دوسرا ترجمہ کیا،یہ ترجمہ اتنا عمدہ ٹھہرا کہ اس سے اہل علم مترجمین نے ترجمہ نویسی کے متعدد اصول وضع کیے۔(ان ساری باتوں کے حوالوں کے لیے ترجمہ نگاری اور ابلاغیات، ص:176 تا180(مطبوعہ:مولانا آزاد نیشنل اردویو نیورسٹی حیدآباد)کو بھی دیکھا جاسکتا ہے)جب یہ ترجمہ بھی قدیم ہو گیا تو حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسننے مالٹا کی جیل میں ان کو سامنے رکھ کر ایک عمدہ ترجمہ کیااور اب اسلامی کتب خانوں میں محض اردو زبان میں قرآنِ کریم کے ترجموں کی تعداد ساٹھ سے زائد ہو چکی ہے اور تفسیروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
یہ حقیقت مسلم ہے کہ تفسیروں کا سب سے بڑا ذخیرہ عربی زبان میں ہے، یہی زبان دین اسلام کی صحیح اور مستند ترجمان ہے،اردو زبان میں مذہب اسلام کا سب سے زیادہ حصہ اسی زبان سے منتقل ہوا ہے،راقم الحروف نے اپنے اس مقالے میں تفسیروں کے محض ان ترجموں کے تعارف کو موضوع بنایا ہے،جوبراہِ راست عربی سے اردو میں کیے گئے ہیں۔”بارہ تفسیروں“ کے کل تیئس ترجمے میرے محدود استقرا میں آئے ہیں،ان میں سے صرف ”پانچ تفسیریں“ایسی ہیں،جن کے ترجمے مکمل ہو سکے ہیں، بقیہ تفسیروں کے ترجمہ اب تک تشنہٴ تکمیل ہیں۔الحمدللہ یہ سارے ترجمے علمائے ہندکے ہیں،ان میں بھی چودہ ترجمے علما ئے دیوبند نے کیے ہیں،بقیہ کے بارے میں تحقیق نہ ہو سکی کہ وہ کس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں؟اُن ترجموں کا تعارف پیش خدمت ہے۔
تفسیر ابن عباس
اصولِ تفسیر میں قرآن کریم کے معانی کی وضاحت کے لیے مفسرین نے چھ مآخذذکر فرمائے ہیں:
1..…آیات کی تفسیر آیات ہی سے ہو۔
2..…آیات کی تفسیر صحیح احادیث سے ہو۔
3..…آیات کو اثارِ صحابہ کی روشنی میں سمجھا جائے۔
4..…آیات کو تابعینکے ارشادات سے سمجھا جائے۔
5..…لغتِ عربِ او لین سے بھی مرادِ الہی کی تعیین میں مدد ملتی ہے۔
6..…آخری درجہ عقلِ سلیم اور فہم صحیح کا ہے۔
ان میں قرآن وحدیث کے بعد سب سے قابلِ اعتماد مآخذ صحابہٴ کرام کے آثار ہیں؛اس لیے کہ ہم تک دین کے پہنچنے کا سب سے اہم واسطہ صحابہ کرام ہیں، انھوں نے ہی مشکٰوةِنبوت سے اولین مرحلے میں روشنی حاصل کی،اگر ان پر ہمارااعتماد نہ رہا تو دین کا سارا دفتر بے اعتبار ہو جائے گا،نعوذباللہ قرآن کی آیات بھی مشکوک ہو جائیں گی؛اس لیے کہ یہ بھی انھیں کے واسطہ سے ہم تک پہنچی ہیں،یہی وجہ ہے کہ مفسرین نے آثارِ صحابہ کو بڑی اہمیت دی ہے،ان میں بھی حضرت عبداللہ بن عباس کا امتیاز مسلم ہے،یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے،فہمِ آیات میں انھیں ایک خاص ذوق حاصل تھااور وہ دعائے نبوی کی برکت تھی۔(فتح الباری:1/170) آپ کو”ترجمانُ القر آن“کے مبارک لقب سے نوازا گیا۔(ابن مسعود، مستدرکِ حاکم) آپمیں سارے صحابہٴ کرامکے علوم جمع تھے،نا چیز کے محدودعلم میں دو ہی صحابہٴ کرامایسے ہیں،جن کی تفسیری روایات اکھٹی کتابی شکل میں دستیاب ہیں،ایک تو حضرت ابن عباس ہیں اور دوسرے حضرت ابن مسعود،حضرت عبداللہ بن عباس کی تفسیر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ اس کے اردو ترجمہ سے بھی امت مستفید ہو رہی ہے، میرے علم میں ابھی تک”تفسیر ابن مسعود “کا اردو ترجمہ نہیں ہو سکا ہے۔
تفسیر ابن عباس کے مراتب
اس کے موٴلف علامہ ابوالطاہر محمد بن یعقوب بن محمد بن ابراہیم نجدالدین فیروز آبادی شیرازی،شافعی ہیں،(ولادت:749ھ مطابق 1339ء وفات:20، / شوال 817ھ مطابق3 /جنوری1415ء) یہ جلیل القدر مفسر،محدث اور ادیب تھے،علمِ لغت میں اپنا ایک نمایاں مقام رکھتے تھے،علامہ فیروز آبادینے دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کی ہے،حرمین شریفین،ایشیائے کو چک،ترکی،قاہرہ کے علاوہ ہندوستان آنے کی تاریخ بھی ملتی ہے،ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:
1..…بصائر ذوالتمیز فی لطائف الکتاب العزیز: یہ قرآن مجیدکی تفسیر ہے،چھ جلدوں پر مشتمل ہے،قاہرہ اور بیروت سے بارہا چھپ چکی ہے۔
2..…سِفر السعادة یا الصراط المستقیم کے نام سے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر ایک مختصر، مگر جامع تصنیف ہے۔
3..…صحیح بخاری کی ایک شرح کا ذکر بھی ان کے تراجم میں ملتا ہے، مگر وہ نایاب ہے۔
4..…علامہ زمخشری کی کشاف کے خطبہ کی ایک مستقل شرح بھی تحریر فرمائی تھی۔
5..…البُلغہ فی تاریخ ائمہ اللغة:یہ کتاب بھی اہلِ علم کے نزدیک اہم اور مرجع کی حیثیت رکھتی ہے۔
6..…القاموس:یہ سب سے مشہور اور مفید ترین لغت ہے،محققین علما اس پر اعتماد کرتے ہیں،سیدمرتضیٰ زبیدی (وفات1791ء) نے”تاج العروس“کے نام سے اس کی دس جلدوں میں شرح لکھی ہے۔
7..…تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنھما: علامہ فیروز آبادی نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی تفسیری روایات کو اکٹھا کر کے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے،اشاعت کے بعد سے ہی اس کی مقبولیت چہاردانگِ عالم میں پھیل گئی؛اس لیے کہ آپ کی شخصیت بالاتفاق امت میں ترجمان القرآن کی حیثیت سے مسلم ہے،آپ کی تفسیر وروایت کی بہت سی خصوصیات ہیں،مثلاً:
الف)…روایات اکثررسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے منسوب ہیں، حضرت عمرجیسے بڑے بڑے صحابہ کرام آپ سے تفسیر قرآنی میں استفادہ کرتے تھے۔
ب)…ان کی تفسیر سارے صحابہٴ کرام کی تفسیروں کامظہرِ جمیل ہے؛اس لیے کہ انھوں نے سارے صحابہٴ کرام کے علوم کو اکٹھا کر لیا تھا۔
ج)…ان میں لغت،اشعار،محاورات،لہجات اور ایام وتاریخ سے استدلال؛بلکہ ان کی دقیق اور مفید وعلمی بحث ہے۔
د)…یہ تفسیر حضرت ابن عباسکے حزم واحتیاط کا نمونہ بھی ہے،حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ:اگر ان سے کوئی مسئلہ پوچھتا تو سب سے پہلے آیات سے اس کا جواب دیتے؛لیکن اگر کوئی حکم قرآنِ پاک میں واضح نہ ملتا تو حدیث وسنت کو بنیاد بناتے اور اگر قولِ نبی سے مسئلہ صراحتاً ثابت نہ ہوتو شیخین کے اقوال میں جواب تلاشتے تھے؛ لیکن اگر ان میں بھی جواب کی جانب اشارہ نہ پاتے تو اپنی رائے بیان فرماتے اور اپنی رائے کے دلائل بھی اچھی طرح واضح فرماتے تھے۔(الاصابہ فی تمیز الصحابہ1/325)
ھ)…علامہ ذہبی کے بہ قول حضرت ابن عباس نے قرآنِ پاک کے اجمال کی تفصیل میں بعض جگہ انجیل سے بھی استفادہ کیا ہے،مگر بڑے ہی حزم واحتیاط کے ساتھ۔
و)…حضرت ابن عباس کے دور میں بہت سے ایسے مسائل بھی سامنے آئے،جن کا واضح حکم قرآن وحدیث میں نہیں تھا،ان میں سے بہت سے اہم مسائل کو آپ نے آیات سے مستنبط کیا؛اس طرح کے مجہتدات بھی آپ سے منقول ہیں۔
ز)…آپ کی مرویات کی تعداد ایک ہزار چھ سو ساٹھ (1660) یاایک ہزار سات سو دس(1710)ہے،یہ ساری روایتیں بخاری شریف اور مسلم شریف کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں بھی ہیں،حدیث شریف کا کوئی بھی مجموعہ ایسا نہیں جس میں آپ کی روایات درج نہ ہوں،کوئی مفسر آپ کے فہمِ قرآن سے بے اعتنائی نہیں کر سکتا،آپ کے اقوال کا بہت بڑا ذخیرہ”جامع البیان فی تفسیر القرآن“میں ہے،یہ علامہ ابن جریر طبری(224ھ تا310ھ) کی مرتب کردہ ہے، یہ تفسیر کے ذخیرہ میں سب سے پہلی اور مفصل کتاب ہے۔
یہ قیمتی ذخیرہ آٹھویں صدی تک مختلف کتابوں میں منتشر تھا،اللہ تعالیٰ نے علامہ فیزوز آبادی کو توفیق بخشی اور انھوں نے ان مرویات کو ایک جگہ جمع فرما کر امت پر احسان فرمایا ہے،اللہ تعالیٰ ان کو اس کی جزا عنایت فرمائیں۔(آمین)
تفسیر ابن عباس کی اسنادی حیثیت
حضرت عبداللہ بن عباس کے تفسیری افادات دنیا میں ہر طرف پھیلے،حرمین شریفین کے علاوہ عراق، دمشق اور دیگر بلادِاسلامیہ میں بھی آپ ہی کے شاگردوں نے آپ کی روایات؛بلکہ فن تفسیر کو عروج بخشا،مشہور تلامذہ درج ذیل ہیں:
حضرت سعید بن جبیر، امام مجاہد بن جبر،امام ضحاک بن علی بن ابی طلحہ،مقاتل بن سلیمان اور حضرت عکرمہ وغیرہ۔(تلخیص از عرض مترجم،مع ترجمہ تفسیر ابن عباس،ص:23)
حضرت ترجمانُ القرآنکی روایات اِنھیں شاگردوں سے تفسیر اور حدیث کی کتابوں میں مروی ہیں،کتبِ ستہ کے علاوہ مسند احمد،مسند ابوداوٴد طیالسی،مسند شافعی، مسندحمیدی،معجم طبرانی،سنن دارمی،سنن دار قطنی اور المنتقی لابن جارودوغیرہ میں بھی کتاب التفسیر میں کثرت سے روایات ملتی ہیں،اسی کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی باتیں ایسی بھی ہیں جو خلافِ واقعہ حضرت ابن عباس کی طرف منسوب ہیں،اس طرح کی موضوع اور الحاقی روایات کو صحیح اور مستند روایات سے الگ کرنا ضروری ہے؛لیکن اتفاق سے اب تک یہ کام نہیں ہوسکا ہے،رہایہ مجموعہ جس کو علامہفیروزآبادی نے ترتیب دیا ہے،وہ ایک ہی سند پر مشتمل ہے،جو محد ثین ومفسرین کے نزدیک نہایت کمزور اور نا قابلِ اعتماد ہے؛البتہ مقاصدِ شریعت اور درایت ومعانی کے لحاظ سے ذکر کردہ باتیں اکثر قابلِ اعتماد ہیں،ضرورت ہے کہ تحقیق کے کام کو کوئی محقق عالم انجام دے،جس کی نظر احادیث ور جال پر ہو،نیز مضامینِ قرآن اور تفسیرِآیات سے اچھی خاصی مناسبت ہو،وباللہ التوفیق!
تفسیر ابن عباس کے نسخے
اس تفسیر کے درج ذیل نسخے موجود ہیں:
(الف)…ایک قلمی نسخہ مخطوطہ کی شکل میں پنجاب پبلک لائبری لاہور میں ہے۔
(ب)…1314ھ میں مصرسے”در منثور“کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔
(ج)…1316ھ میں علاحدہ طور پر مصر سے ہی شائع ہوئی۔
(د)…1685ھ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب دہلوی رحمة اللہ علیہ کے”ترجمہ، قرآن مجید“ کے ساتھ شائع ہوئی۔
(ھ)…اس کے بعد حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمة اللہ علیہ کے”ترجمہ، قرآن مجید“کے حاشیہ پر شائع ہوئی۔(مستفاد:ازعرض مترجم،تفسیر ابن عباس،ص:7)
لبابُ النقول فی اسباب النزول
تفسیر ابن عباس کے ساتھعلامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ(911ھ) کی مشہورومعروف کتاب ”لباب النقول فی اسباب النزول“بھی مطبوع ومترجم ہے،”شانِ نزول“کے موضوع پر یہ بڑی قابلِ اعتماد کتاب ہے، اس میں حدیث،اصولِ حدیث اور اصولِ درایت نصوص کو سامنے رکھ کرروایات کی تلخیص کی گئی ہے،شروع میں قدرے تفصیل سے مقدمہ لکھا ہے، اس میں شانِ نزول کی اہمیت، روایات کے درمیان ترجیح کے اصول ،ائمہ کے اقوال اور اپنے تلخیص طرز کو بڑے عمدہ انداز میں بیان فرمایا ہے،غرض یہ کہ علامہ سیوطی نے اسبابِ نزول والی روایات کی سندوں کی اچھی طرح چھان بین کی ہے، راویوں کے سلسلے میں بھی تحقیق کی ہے کہ کون سے راوی مذکورہ واقعہ کے وقت موجود تھے اور کون سے نہیں؟اور آیاوہ اعلیٰ درجہ کے مفسر تھے یا نہیں؟خود انھوں نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ میں نے اختصار کے پیش نظر سندوں کو بیان کرنے کے بجائے،اس کتاب کا حوالہ دے دیاہے،جس میں وہ روایت مذکورہے؛تا کہ قاری خود بھی تحقیق کر سکے،اسی طرح اپنے پیش رومصنف علامہ واحدیکے بیان کردہ مباحث کو بھی”ک“کے رمز کے ساتھ اس تصنیف میں شامل فرما لیا ہے،متعارض روایات کے درمیان دفعِ تعارض کی بھی کوشش کی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ”لبابُ النقول“میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایات بہت زیادہ ہیں،لبابُ النقول کی جامعیت اور مذکورہ بالا خصوصیت کی وجہ سے امت نے اسے قبول کیا ہے۔
”لباب النقول“کا ترجمہ :
تفسیر ابن عباس کے ساتھ”لبابُ النقول“کی طباعت چوں کہ عربی زبان میں ایک ساتھ عمل میں آئی تھی؛اس لیے ترجمہ میں بھی اس کو الگ نہیں کیا گیا:
(الف)…مولانا عابدالرحمٰن صدیقی کے ترجمہ میں بھی لباب النقول کا ترجمہ ہے۔
(ب)…اور حافظ محمد سعید احمد عاطف نے بھی اس کا اردو ترجمہ کیا ہے۔
جس طرح”تفسیر“میں پہلے حضرت ابن عباس کی مرویات نقل کی گئی ہیں؛پھر اس آیت سے متعلق شانِ نزول کی روایت اگر موجود ہے تو اس کو ذکر کیا ہے؛اسی طرح ترجمہ میں بھی پہلے آیات کا ترجمہ ہے،پھر حضرت ابن عباسکی تفسیر کا،اس کے بعد علامہ سیوطی کی”لباب ُالنقول“کا ترجمہ ہے، لباب النقول کے ترجمہ سے پہلے ہر جگہ”شانِ نزول“اور آیات کا ابتدائی ٹکڑا عنوان کے طور پر لکھا گیا ہے اور جہاں پر بات پوری ہوئی ہے،وہاں قوسین کے درمیان”لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی“درج ہے؛ البتہ بعض جگہوں پر بین القوسین والی عبارت کتابت سے رہ گئی ہے۔
تفسیر ابن عباس کے اردو ترجمے
علامہ ابو طاہر فیروز آبادیکی جمع کردہ تفسیر ابن عباس کے دو ترجمے نظر نواز ہوئے:
(الف)…ایک کے مترجم پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف ہیں،ان کا آبائی وطن بالاکوٹ (پاکستان)ہے۔
(ب)…دوسرے کے مترجم حضرت مولانا عابدالرحمٰن صدیقی رحمةاللہ علیہ ہیں۔اس ترجمہ کو پہلے 1970ء میں”کلام کمپنی کراچی“نے شائع کیا۔اول الذکر مترجم نے آخر الذکر مترجم کے ترجمہ سے خصوصی استفادہ کیا ہے،جس کی صراحت خود انھوں نے”عرضِ مترجم“(ص:8)میں کی ہے،دونوں مترجمین میں سے کسی کے شخصی احوال معلوم نہ ہو سکے؛اس لیے مزید تعارف رقم نہیں کر سکتا۔
(ج)…ایک اور ترجمہ کا ذکر بھی اول الذ کر مترجم نے کیا ہے،یہ1926ء میں آگرہ سے شائع ہوا ہے(عرضِ مترجم،ص:8)
راقم الحروف کے خیال میں یہی اولین ترجمہ ہے، لیکن یہ ترجمہ دریافت نہ ہو سکااور نہ ہی اس کی مزید تفصیلات معلوم ہو سکیں۔
ترجمہ پروفیسر حافظ محمد سعید احمد عاطف
2006ء میں”اعتقاد پبلشنگ ہاوٴس،نئی دہلی“نے اس ترجمہ کو شائع کیا،یہ تین جلدوں پر مشتمل ہے،پہلی جلد کے صفحات کی تعداد پانچ سو پینتیس (535 ) ہے ، دوسر ی جلد چار سو چونسٹھ(464)اور تیسری پانچ سو چار(504)صفحات پر مشتمل ہے،صفحات کی کل تعداد پندرہ سو تین ہے، قیمت چھے سو پچھتّر(675)روپے درج ہے۔
روزنامہ’منصف‘حیدرآباد کے توسط سے طباعت کے بعد ہی راقم الحروف کے پاس برائے تبصرہ یہ ترجمہ آیا تھا،تبصرہ لکھا گیا اور چھپا بھی،اس نسخہ میں کتابتِ قرآن کی تصحیح کی سند مع مہر تیسریجلد کے اخیر میں درج ہے،اوپر دائیں کالم میں آیات اور بائیں کالم میں مولانا فتح محمد جالندھری کا ترجمہ قرآن ہے،ترجمہ کی زبان سلیس او ربا محاورہ ہے۔
تفسیر کا ترجمہ لفظی نہیں، بلکہ آزاد کیا گیا ہے،اکثر جگہوں پر لفظ دو لفظ کے اضافہ کو بھی گوارا کیا گیا ہے،تاکہ اردو خواں حلقہ کو ترجمہ پن کا احساس نہ ہو،اسی طرح ہر آیت کی تفسیر سے پہلے اس کا نمبر بھی دے دیا گیا ہے،تا کہ مقارنہ میں آسانی ہو،”لباب النقول“کے شانِ نزول کو بھی آیت نمبر کی تعیین کے بعد لکھا گیا ہے اور اہم بات یہ ہے کہ دیوبند سے چھپے ہوئے ترجمہ کو سامنے رکھ کر یہ ترجمہ کیا گیا ہے،اس سے استفادہ کی صراحت خود مترجم نے کی ہے۔(ص:8)
اس ترجمہ میں پہلے”نقش اول“کے نام سے”عرضِ ناشر“ہے، اس میں تفسیر اور اس کے جامع ومرتب کے ساتھ ترجمہ کی ضرورت بیان کی گئی ہے،ساتھ ہی مترجم ومعاونین کا شکریہ ادا کیا گیا ہے،پھر چار صفحات پر مشتمل عرضِ مترجم ہے،اس میں قرآنِ پاک،ترجمہ وتفسیر،سیرت نبوی اور آثارِ صحابہ وغیرہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے،’تنویر المقباس“کے مقام ومرتبہ کو بیان کیا گیا ہے،اس کے مخطوطہ اور مطبوعہ نسخوں کی تفصیلات درج کی گئی ہیں،ساتھ ہی اس کے دواردو ترجموں کا ذکر بھی ہے،پھر مترجم نے اپنے ترجمے کی خصوصیات بیان فرمائی ہیں،اخیر میں معاونین کا شکریہ اور قارئین سے دعا کی درخواست ہے،اس کے بعد پندرہ صفحات پر مشتمل ایک مقالہ ہے،اس میں ترجمانُ القرآن حضرت عبداللہ بن عباس کی زندگی کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے ، نام ونسب،حلیہ،شوقِ علم،دعائے نبوی کا فیضان،حیرت انگیز ذہانت،علم کے لیے اسفا ر ، علوم اسلامی سے عمومی اور علومِ قرآنی سے خصوصی دلچسپی،طرزِ تفسیر اور مرویات کی تعداد وغیرہ بھی بیان کی گئی ہے،اس کے بعد دو مضمون ہیں،ایک میں علامہ سیوطی کا تعارف اور مختصر احوال ذکر کیے گئے ہیں،دوسرے میں علامہ ابو الطاہر فیروز آبادی موٴلف تفسیر ابن عباس کا تعارف دو صفحات میں مرقوم ہے۔
ان سب کے بعد ترجمہ کی ابتدا کی گئی ہے،سب سے پہلے علامہ سیوطی کی”لباب النقول“ کا مقدمہ ہے، پھر”تنویر المقباس“ کا مقدمہ ہے، آخر الذکر مقدمہ میں حمد وصلوة کے بعد تفسیر کے سلسلہ سند کو بیان کیا گیا ہے،اس کے بعد بسم اللہ کی تفسیر سے کتاب شروع ہوئی ہے،ترجمہ کی کتابت کمپیوٹر کے ذریعہ کی گئی ہے،تصحیح کے کافی جتن کے باجود غلطیاں رہ گئی ہیں،اس ترجمہ میں سورتوں کی فہرست تو دی گئی ہے،لیکن فہرستِ مضامین بھی نہیں ہے، اگر اس کے ساتھ فہرست مضامین بھی ہوتی تواس کا افادہ کثیر اور آسان ہوتا؛اس لیے کہ آج کل پوری کتاب پڑھ ڈالنے کا مزاج علماء میں بھی ختم ہوتا نظر آرہا ہے تو عوام سے کس طرح اس کی امید کی جائے؟غرض یہ کہ اردو میں ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ عوام ہی زیادہ پڑھے گی،ان کے لیے فہرست ہوتی تو اور بھی اچھا ہوتا،ان سب کے باوجود ترجمہ کا کام ٹھیک ہے،طباعت اور کاغذ وغیرہ عمدہ ہے،ٹائٹل بھی دیدہ زیب ہے۔
ترجمہ مولانا عابدالرحمٰن صدیقی
تفسیر ابن عباس کا دوسرا ترجمہ حضرت مولانا عابدالرحمٰن صاحب صدیقی کا ہے،اس ترجمہ میں بھی علامہ سیوطی کی”لباب النقول فی اسباب النزول“ شامل ہے،اس کی اشاعت دیوبند کے”ادارہ درسِ قرآن“نے کی ہے،ترجمہ نہایت عمدہ اور سلیس ہے،اصل متن کی مکمل تصویر ترجمہ میں جھلکتی ہے،اردو کے محاورات اور روز مروں کے استعمال سے زبان کافی معیاری بن گئی ہے،ثقیل اور مشکل الفاظ سے حددرجہ احتراز کیا ہے،اس میں آیات کے ترجمے کے لیے حضرت تھانوی کے ترجمہ کو منتخب کیا گیا ہے،اس سے قاری کا اعتماد اور زیادہ ہو جاتا ہے،آیات کو قدرے جلی خط میں لکھا گیا ہے،پھر اس کے نیچے لکیریں کھینچ کر اردو ترجمہ قدرے باریک خط میں دیا گیا ہے،فقہ کی روشنی میں ترجمہ چھاپنے کا یہ طریقہ مستحسن اور بہتر بھی ہے۔
اس ترجمہ کی ایک بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دارالعلوم دیوبند کے دو عظیم مفتیانِ کرام کی نظر سے گذراہوا ہے،ایک حضرت مفتی کفیل الرحمٰن صاحب نشاط عثمانی رحمةاللہ علیہ ہیں اور دوسرے حضرت الاستاذ مفتی ظفیر الدین صاحب دامت برکاتہم ہیں،یہ دونوں حضرات”دارالافتاء“کے بڑے قابلِ اعتماد مفتی تھے،اول الذکر ابھی چند سال پہلے وفات پاگئے اور آخر الذکر اپنی کبرِ سنی کی وجہ سے استعفادے کر اپنے گھر میں آرام فرماہیں۔حضرت مفتی کفیل الرحمٰن صاحب نشاط عثمانی اردو زبان وادب کا بھی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور بہت بڑے شاعر تھے، ان کے تین شعری مجموعے زندگی میں ہی شائع ہو کر اہلِ ذوق سے داد تحسین حاصل کر چکے ہیں(راقم الحروف نے اپنے ”ایم،فل“کے مقالہ میں ان شعری مجموعوں کے تجزیاتی مطالعہ کو بھی شامل کیا ہے )موصوف نے پورے ترجمہ کو بڑی گہرائی سے مطالعہ فرما کر”عنوان بندی“بھی کی ہے،جس سے اس ترجمہ کی افادیت میں چار چاندلگ گئے ہیں،ترجمہ کی تکمیل کے بعد اشاعت کے موقع سے چھے اشعار میں”ہدیہٴ عقیدت“بھی پیش فرمایا ہے اور حضرت مفتی محمد ظفیر الدین صاحب دامت برکاتہم نے اس ترجمہ پر تقریظ رقم فرمائی ہے اور مترجم نے”عرضِ مترجم“کے عنوان سے سات صفحات پر مشتمل ایک دستاویز تحریر شامل اشاعت فرمائی ہے،ان تمام خصوصیات کی وجہ سے یہ ترجمہ حافظ محمد سعید احمد عاطف مد ظلہ کے ترجمہ سے بہتر معلوم ہوتا ہے،خود مترجم کو بھی اس کا اعتراف ہے،راقم الحروف کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہ آسکی کہ اچھے ترجمہ کی موجودگی میں پھر الگ سے ترجمہ کی ضرورت ہی کیارہ گئی تھی کہ جناب حافظ عاطف صاحب نے زحمت فرمائی؟
طریقِ اشاعت
اس ترجمہ کی اشاعت کے لیے”ادارہ“نے پہلے ممبر بننے کا اعلان دیا،پھر ان ممبران کو قسطوں میں ترجمہ بھیجا گیا،دیوبند سے عربی تفسیروں کے اردو ترجموں میں چند ایک کی اشاعت کا یہی طریقہ لکھا ہوادیکھا گیااور بعض وقت تاخیر وغیرہ کی معذرت بھی بعض قسطوں میں رقم نظر آئی۔
ترجمہ تفسیر طبری
”جامع البیان فی تفسیر القرآن“،جسے تفسیر طبری کہا جاتا ہے،تفاسیر میں سب سے قدیم ہے،اس کے مولف علامہ محمد بن جریر رحمة اللہ علیہ ہیں،ان کی کنیت ابو جعفر ہے،طبرستان کی طرف نسبت کی وجہ سے ”طبری“کہلاتے ہیں،ان کی ولادت باسعادت224ھ اور وفات310ھ بتائی جاتی ہے،”تفسیر ابن جریر“جیسی کوئی تفسیر اسلامی کتب خانوں میں نہیں ہے،امت کے ہر طبقہ میں مقبول ومتداول ہے،شایدہی کوئی مفسر ایسا ہو،جس نے اس تفسیر سے خوشہ چینی نہ کی ہو،اس تفسیر کو بالاتفاق مأخذومرجع ہونے کی حیثیت حاصل ہے،اس کی خصوصیات درج ذیل ہے:
(الف)…احادیث اور روایات سے تفسیر میں بعد والی ساری تفسیروں کے لیے نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
(ب)…آیات کی تفسیر میں اقوالِ صحابہ سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے۔
(ج)…صحابہ،تابعین اور تبعِ تابعین میں سیمفسرین کی آرا بھی نقل کی گئی ہے۔
(د)…غرائب القرآن میں خصوصی طور سے لغت وزبان، محاورات واشعار سے استفادہ کیا گیا ہے۔
(ھ)…متعدد مسائل میں ”اجماعِ امت“کی نشان دہی کی گئی ہے۔
(و)…مفسر طبری چوں کہ خود مجتہد ہیں؛اس لیے بہت سے مسائل میں اپنی رائے اور اپنا فیصلہ بھی انھوں نے رقم فرمایا ہے،نیز دوسرے کے اقوال پر محاکمہ بھی کیا ہے،یہ بات اور ہے کہ بعض مسائل میں اپنی رائے سے بعد کی تصانیف میں رجوع بھی کر لیا ہے۔
(ز)…یہ تفسیر ان کے علاوہ دوسرے علوم وفنون اور اسراروحکم کا گنجینہ بھی ہے۔
عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اردو داں حلقہ کے لیے ناقابل رسائی تھی؛اس لیے حضرت مولانا ظہور الباری اعظمی نے اس کا ترجمہ کیااور دیوبند کے مکتبہ ”بیت الحکمت“کے ذریعہ اس کی اشاعت عمل میں آئی،ممبر سازی کے ذریعہ قسط وار طبع ہو کر ممبر ان تک وی،پی پوسٹ کے ذریعہ پہنچتی رہی، چو نتیس ( 34) پینتیس ( 35) قسطوں میں شائع کیے جانے کا اعلان دیا گیا تھا،مگر معلوم نہیں کہ ساری قسطیں مکمل ہوئی یا نہیں؟ تین پاروں کے چھ اجزا مطبوع شکل میں نظر نواز ہوئے۔
ترجمہ بہت عمدہ ہے، زبان وبیان کے لحاظ سے کہیں کمی محسوس نہ ہوئی، وقت کے بہت بڑے صاحب طرز ادیب مولانا عبدالماجد دریا بادی رحمة الله علیہ نے اپنے رسالے ہفتہ وار ”صدق جدید“ میں ترجمہ کی عمدہ گی کا اعتراف فرمایا ہے ، اس عظیم علمی تفسیری سرمایہ کے اردو زبان میں منتقل ہونے سے ان کو بہت خوشی ہو رہی تھی ،تبصرہ نہایت حوصلہ افزا ہے، 16 شوال المکرم 1384ھ کے ”صدق جدید“ کے فائل کو دیکھا جاسکتا ہے، اسی طرح مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہٴ دینیات کے صدر حضرت مولانا سعید احمد اکبر آبادی نے بھی ماہ نامہ ”برہان“ دہلی میں ”تفسیر ابن جریر طبری“ کے اردو ترجمہ کی بڑی تعریف فرمائی، ان بزرگوں کے اعتماد کے بعد ترجمہ کی خوبی سے کسی طرح انکار نہیں کیا جاسکتا اور سب سے بہتر تجربہ اپنا مطالعہ ہے، چوں کہ یہ ترجمہ اردو خواں حلقہ کو پیش کیا جارہا ہے، اس لیے ان کی رعایت میں نحو وصرف کے دقیق مسائل کا ترجمہ جان بوجھ کر چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ عوام کی گرفت سے باہر نہ ہو جائے ، البتہ قراء ت اور زبان ولغت کی بحث کو تسہیل کے ساتھ ترجمہ میں پیش کیا ہے، اسی طرح شروع میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ : کتاب کے ابتدائی حصے ( مقدمہ) کا ترجمہ چھوڑ دیا گیا ہے ۔
راقم الحروف کو یہ بات سمجھ میں نہ آئی کہ قراء ت اور زبان کی بحث کو جب تسہیل کے ساتھ بیان کرنے کی شکل نکالی گئی تو پھر نحو وصرف کے مسائل کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟کیا ان کو تسہیل کے ذریعہ ترجمہ میں شامل کرنا ممکن نہ تھا ؟ یہ طے کر لینا کہ اس کو عوام ہی پڑھے گی، خواص اور درمیان کے اہل ذوق استفادہ نہیں کریں گے، محل نظر ہے۔ اس لیے ہرجز کا سلیقہ سے ترجمہ ہونا ضروری تھا، اسی طرح ” مقدمہ“ کو ترجمہ سے مستثنیٰ کرنا بھی مناسب نہیں تھا،اس کو بھی تسہیل کے ساتھ ترجمہ میں شامل کیا جاتا تو بہتر تھا، خیر! پسند اپنی اپنی…
اس تفسیر میں اچھی خاصی تعداد میں اسرائیلی روایات، بلکہ ضعیف کے ساتھ موضوع روایات بھی ہیں،ترجمہ کے ساتھ اگران کے درمیان صحیح اور غلط، ثابت اور غیر ثابت کی نشان دہی کر دی جاتی تو اور بھی بہتر تھا، جیسا کہ ”ابن کثیر“ میں مفسر نے خود یہ کام کرکے اپنا اعتماد حاصل کیا ہے ، الله کرے! ”مردے ازغیب نمایدوکارے بہ کند“!
غرض یہ کہ ترجمہ معیاری اور سلیقہ مند ہے، اس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں قرآنی آیات کے ترجمہ کے لیے سب سے قابل اعتماد ترجمہ قرآن کو منتخب کیا گیا ہے اور وہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا ترجمہ ہے۔ (جاری)