Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1435ھ

ہ رسالہ

10 - 13
دعا کی اہمیت اور احکام

مفتی ثناء الله خان ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

حالاں کہ جیسے ہمیں نماز، روزے کے مسائل جانناضروری ہیں، اسی طرح تاجر پر بھی خرید وفروخت کے مسائل کہ میں جو یہ معاملہ کر رہاہوں جائز ہے یا ناجائز یہ جاننا فرض عین ہے۔

چناں چہ علامہ شامی رحمہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں:(واعلم ان تعلم العلم ویکون فرض عین) البیوع علی التجار لیحترزوا عن الشبہات والمکروھات فی سائر المعاملات․(حاشیہ ابن عابدین، مقدمہ31/1 رشیدیہ)

یعنی بیوع کا علم تاجروں پر فرض عین ہے، تاکہ وہ تمام معاملات میں شبہات اور مکروہات سے بچ سکیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تھا:”إن لکل امةٍ فتنةً، وفتنة امتی المال“․ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء أن فتنة ہذہ الأمة فی المال، رقم الحدیث:2336)

بے شک ہر امت کے لیے کوئی نہ کوئی چیز فتنہ ہوتی ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔

آج کا مسلمان اسی فتنے میں مبتلا ہوچکا ہے، الله تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔

شیخ الحدیث حضرت اقدس مولانا سلیم الله خان صاحب کی نصیحت
حضرت اقدس دامت برکاتہم سال کے آخر میں تخصص کے طلباء کو نصائح فرماتے ہیں، ہم جب تخصص سے فارغ ہو رہے تھے تو حضرت اقدس دامت برکاتہم نے معمول کے مطابق ہمیں طلب فرمایا او را س مجلس میں حضرت اقدس دامت برکاتہم نے انتہائی غم وغصے میں صرف ایک بات کی نصیحت کی۔

”کہ مال کے فتنے سے بچو، آج کل مولوی اس فتنے میں مبتلا ہو رہے ہیں۔“

اور یہ سو فیصد حقیقت ہے کہ آج مسلمانوں کا وہ دین دار طبقہ، جو حرام سے کسی نہ کسی درجے میں بچا ہوا تھا، اسلامی بینکاری کے نام پر وہ بھی اس میں مبتلا ہو گیا ہے۔

حالاں کہ حضرت اقدس دامت برکاتہم جو ”وفاق المدارس العربیہ پاکستان“ کے صدر ہیں ،ان کی کوششوں اور سرپرستی میں اس کا جائزہ لیا گیا تو پورے ملک کے جید مفتیان کرام اس بات پر متفق ہو گئے کہ اسلامی بینکاری کے نام سے جو نظام چل رہا ہے ، ا س کا حکم عام سودی نظام اور بینکوں کی طرح ہے۔

اسی طرح بعض کمپنیاں جیسے”کیپ ایبل ایشیا کمپنی“ وغیرہ شرکت ومضاربت کے نام پر لوگوں سے رقم بٹور رہی ہیں اور بعض اہل علم بھی اس میں ملوث ہو چکے ہیں، ان میں شرکت کو بھی مفتیان نے ناجائز قرار دیا ہے۔

حرام مال کھانے کی نحوست کااندازہ اس حدیث سے بخوبی ہو جاتا ہے، کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ایک آدمی لمبا سفر کرکے بیت الله شریف میں حاضر ہو کر، بکھرے، غبار آلود بالوں کے ساتھ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے الله تعالیٰ کو یارب یارب کہہ کر پکارتا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ حالاں کہ اس کا حال یہ ہے کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام اور اس نے حرام کھا کھا کر پرورش پائی ، تو اس کی دعا کیسے قبول ہو گی؟(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب البیوع، ابواب الکسب:3/15، دارالحدیث)

کسی کے وسیلے سے دعا کرنا
آپ صلی الله علیہ وسلم یا کسی بزرگ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز ہے (حاشیہ ابن عابدین، کتاب الحظر والإباحة،281/5، رشیدیہ)

مثلاً اس طرح دعا کرے کہ یا الله! آپ صلی الله علیہ وسلم کے وسیلے سے میرا یہ کام کر دے۔ ترمذی شریف کی روایت سے اس کا ثبوت ہے۔

چناں چہ اس میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص تکلیف کی شکایت لے کر آیا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کو یہ دعا پڑھنے کا حکم فرمایا:”اللّٰھْمَّ إِنّی أَسْئلُکَ، وَأَتَوَجَّہ إِلَیْکَ بِنَبیّکَ، مُحَمَّدٍ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ، إِنِّی تَوَجَّھتُ بِکَ إِلٰی رَبِیّ فِيِ حَاجَتِی ھَذہ لِتُقْضٰی لِی، اللّٰھُمَّ، فَشَفِّعْہ فِیَّ“․

اے الله! بے شک میں آپ سے اپنی حاجت مانگتا ہوں اور آپ کی طرف آپ کے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے متوجہ ہوں، جو پیغمبر رحمت ہیں، بے شک میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے اپنے پرورد گار کی طرف متوجہ ہوتا ہوں، سفارش میرے حق میں قبول فرمائیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3578)

اپنے نیک عمل کے وسیلے سے دعا کرنا
انسان نے اگر زندگی میں ایسے نیک اعمال کیے ہیں جو خالص الله تعالیٰ کی رضا کے لیے ہوں، تو ان کے وسیلے سے بھی دعا کرسکتے ہیں۔

چناں چہ بخاری شریف میں ایک روایت ہے، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کا قصہ بیان فرمایا:
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمی چلے آرہے تھے ، ان کو بارش نے آگھیرا، تو وہ پہاڑکے ایک غار میں پناہ کے لیے گئے، ان کے غار کے دہانے پر ایک چٹان آگری، جس سے اس کا منھ بند ہو گیا، تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے ، کہ تم لوگ اپنے نیک کاموں پر غور کرو ، جو تم نے الله کے لیے کیے ہوں اور اس کے واسطہ سے الله تعالیٰ سے دعا کرو، امید ہے کہ الله تعالیٰ اس چٹان کو ہٹا دے گا۔

ان میں سے ایک نے کہا: یا الله! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میرے چھوٹے بچے بھی تھے، میں ان کے لیے جانوروں کو چراتا تھا، جب شام کو واپس آتا تو ان جانوروں کو دوہتا او راپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو پینے کو دیتا ،ایک دن جنگل میں دور تک چرانے کو لے گیا، واپسی میں شام ہو گئی، جب آیا تو وہ دونوں سو چکے تھے، میں نے حسب دستور جانوروں کو دوہا اور دودھ لے کر آیا او ران کے سرہانے کھڑا ہو گیا ، میں نے ناپسند کیا کہ انہیں نیند سے جگاؤں اور یہ بھی برا معلوم ہوا کہ پہلے اپنے بچوں کو دودھ پینے کو دوں، حالاں کہ بچے میرے قدموں کے پاس آکر چیخ رہے تھے، طلوع فجر تک میرا اور بچوں کا یہی حال رہا ، اگر توجانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری رضا مندی کی خاطر کیا ہے تو یہ چٹان تھوڑی سی ہٹا دے، تاکہ آسمان نظر آسکے۔ الله تعالیٰ نے اس چٹان کو تھوڑا سا ہٹا دیا، یہاں تک کہ انہیں آسمان نظر آنے لگا۔

اور دوسرے آدمی نے کہا کہ یا الله! میری ایک چچازاد بہن تھی، میں اس کو بہت چاہتا تھا جتنا کہ مرد عورتوں سے محبت کرتے ہیں ، میں نے اس کی جان اس سے طلب کی ( یعنی اپنے آپ کو میرے حوالے کر دے ) لیکن اس نے انکار کردیا، یہاں تک کہ میں اس کے پاس سو دینار لے کر آؤں، چناں چہ میں نے محنت کی، یہاں تک سو دینار ہو گئے تو میں انہیں لے کر اس کے پاس آیا، جب میں اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھا تو اس نے کہا کہ اے خدا کے بندے! خدا سے ڈر اورمُہر کو بغیر حق کے نہ کھول۔ یہ سن کر میں کھڑا ہو گیا، یا الله! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ صرف تیری خوشی کی خاطر کیا ہے، تو ہم سے اس چٹان کو ہٹا دے۔ تو الله تعالیٰ نے اس چٹان کو تھوڑا سرکا دیا۔

تیسرے آدمی نے کہا کہ یا الله! میں نے ایک فرق چاول پر مزدور کام پر لگایا، جب وہ کام پورا کر چکا ، تو اس نے کہا میرا حق دے دو، میں نے اس کو اس کی مزدوری دے دی، لیکن اس نے اسے چھوڑ دیا اور لینے سے انکار کیا، میں اس کے مال کو برابربڑھاتا رہا، یہاں تک کہ میں نے مویشی اور چروا ہے جمع کر لیے، وہ میرے پاس آیا او رکہا الله سے ڈرو او رمجھ پر ظلم نہ کرو او رمجھ کو میرا حق دے دے۔ میں نے کہا ، ان مویشیوں اور چروا ہے کے پا س جا (اور ان سب کو لے لے)۔ اس نے کہا الله سے ڈر اور میرے ساتھ مذاق نہ کر ، میں نے کہا، میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا ، یہ جانور اور چرواہے لے لے، یہ سب تیرے ہیں، چناں چہ اس نے لے لیااور چلا گیا، اے الله اگر تو جانتا ہے کہ یہ میں نے صرف تیری رضا کی خاطر کیا ہے تو باقی حصہ بھی دور کر دے ، چناں چہ الله تعالیٰ نے پوری چٹان غار کے منھ سے ہٹا دی۔ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الآداب، باب إجابة دعاء من برّ والدیہ، رقم الحدیث:5974)

رات کو باوضو سونے والے کی دعا قبول ہوتی ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے بستر پرلیٹا درانحالیکہ وہ پاک ( باوضو) ہے، الله تعالیٰ کا ذکر کر رہا ہے، یہاں تک کہ اس کو اونگھ آنے لگی ( پس زبان ذکر سے رک گئی) تو وہ نہیں کروٹ بدلے گا، رات کی کسی گھڑی میں ، درآں حالیکہ وہ الله تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی بھلائی میں سے کوئی چیز مانگ رہا ہو، مگر الله تعالیٰ اس کو وہ چیز عنایت فرماتے ہیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب فضل من اٰویٰ إلی فراشہ طاہراً، رقم الحدیث:3526)

دعا کی قبولیت کے لیے گناہوں سے توبہ کرنا ضروری ہے
علامہ آلوسی رحمہ الله تعالیٰ اس آیت: ﴿وقال ربکم ادعونی استجب لکم…﴾ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: کہ حقیقی دعا یہ ہے کہ انسان گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو، اگر انسان گناہوں میں مبتلا ہے اورگناہوں سے توبہ نہیں کرتا اور الله تعالیٰ سے کسی غرض کے لیے دعا کرے، تو یہ دعا نہیں ، اگرچہ الله تعالیٰ سے ہزار مرتبہ دعا کرے۔ ( تفسیر روح المعانی، سورة المومن:60،333/12 دارالکتب)

توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے
اس لیے اپنے گناہوں سے توبہ کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے، چاہے زندگی میں جتنے بھی گناہ ہو گئے ہوں، انسان ان گناہوں پر نادم ہو کر الله تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو جائے، تو الله تعالیٰ سب گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں اے انسان! جب تک تو مجھے پکارے او رمجھ سے امید رکھے ، تو میں تجھے بخش دوں گا ، جن گناہوں میں بھی تو ہو اور مجھے کچھ پروا نہیں۔

اے انسان! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندی تک پہنچ جائیں ، پھر تو مجھے سے معافی کا طلب گار ہو ، تو میں تجھے بخش دوں گا اور مجھے کچھ پروانہیں۔

اے انسان! اگر تو میرے پاس آئے زمین بھر خطاؤں کے ساتھ، پھر تو مجھ سے ملاقات کرے، اس حال میں کہ تونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا، تو میں ضرور تیرے پاس آؤں گا، زمین بھر کر مغفرت کے ساتھ۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3540)

الله کے در کا بھکاری کبھی محروم نہیں رہتا
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان الله حَیِّيٌ کریم، یستحیی اذا رفع الرجل الیہ یدیہ ان یردھما صغرا خائبتین“․

بے شک الله تعالیٰ نہایتحیا والے اور بڑے سخی ہیں، ان کو اس بات سے حیا آتی ہے کہ جب بندہ ان کی طرف اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور وہ ان کو خالی نامراد واپس کر دیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3556)

اگر بار بار گناہ ہو تب بھی توبہ نہ چھوڑے
شیطان بہت ظالم ہے ، جب انسان سے بار بار توبہ کے بعد گناہ سر زد ہو جاتا ہے ، تو شیطان یہ بات دل میں ڈالتا ہے کہ تمہاری توبہ کرنے کا کیا فائدہ؟ چناں چہ وہ گناہ چھوڑنے کے بجائے توبہ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

حالاں کہ الله تبارک وتعالی کی ایسی رحیم کریم ذات ہے کہ اگر انسان سچے دل سے توبہ کرے، تو الله تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں ، چاہے کتنی ہی مرتبہ گناہ سر زد ہو۔ لیکن توبہ کرتے وقت دل میں اس گناہ کو چھوڑنے کا اور آئندہ نہ کرنے کا مصمم ارادہ ہو، ایسا نہ ہو کہ توبہ بھی کر رہا ہو اور دل میں یہ بھی ہو کہ میں فلاں گناہ کا کام کروں گا، ایسی توبہ کا اعتبار نہیں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ما اصر من استغفر، ولو فعلہ فی الیوم سبعین مرة“ جس نے گناہ پر معافی مانگ لی ، وہ گناہ پر نہیں اَڑا، اگرچہ ایک دن میں ستر مرتبہ اس نے وہ گناہ کیا ہو۔(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3559)

وہ لوگ جن کی دعائیں خاص طور پر قبول کر لی جاتی ہیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ثلاث دعوات مستجابات: دعوة المظلوم، ودعوة المسافر، ودعوة الوالد علی ولدہ“․
تین دعائیں قبول کی ہوتی ہیں، اس میں ذرا شک نہیں ۔ 1. مظلوم کی دعا۔ 2.  مسافر کی دعا۔ 3. باپ کی دعا اولاد کے لیے۔( سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب ماذکر فی دعوة المسافر، رقم الحدیث:3448)

اور دعا سے مراد دعا اور بد دعا دونوں ہیں، یعنی یہ اگر کسی کے لیے بد دعا کریں ، تو وہ بھی قبول ہوتی ہے۔

اپنی اولاد وغیرہ کو بد دعا نہیں دینی چاہیے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لا تدعوا علیٰ انفسکم، ولا تدعوا علی أولادکم، ولا تدعوا علی خدمکم، ولا تدعوا علی اموالکم، لا توافقوا من الله ساعة یسال فیھا عطاءً فیستجیب لکم“․

اپنے آپ کے لیے، اپنی اولاد، اپنے خادم اور اپنے اموال کے لیے بد دعا نہ کرو ، اس لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ قبولیت کی گھڑی ہو اور تمہاری بد دعا قبول ہو جائے ۔ ( الترغیب والترھیب ، کتاب الذکر والدعاء ، باب کثرة الدعاء وماجاء فی فضلہ،493/2 ،دار احیاء التراث العربی)

اسی طرح ایک روایت میں ہے :”ثلاثة لا ترد دعوتھم: الصائم حین یفطر، والامام العادل، ودعوة المظلوم، یرفعھا الله فوق الغمام، وفتح لھا ابواب السماء، ویقول الرب: وعزتی، لأنصرنک، ولو بعد حین“․

تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی، روزے دار کی جب روزہ کھولتا ہے، انصاف پر ورحاکم کی ، مظلوم کی بد دعا، الله تعالیٰ اس کو بادلوں سے اوپر اٹھا لیتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور الله تعالیٰ فرماتے ہیں : میری عزت کی قسم! میں ضرور تیری مدد کروں گا، اگرچہ تھوڑی دیر کے بعد ہو ۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3618)

بچوں کی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ میری امت کے بچوں کی دعائیں مقبول ہیں، جب تک کہ گناہوں میں مبتلا نہ ہوں۔(الفردوس بمأ ثور الخطاب، رقم الحدیث:3099،213/2، عباس احمد الباز)

محسن کی دعا محسن کے بارے میں قبول کی جاتی ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ محسن ( یعنی کسی نے دوسرے شخص پر احسان کیا ، تو جس شخص پر احسان کیا گیا ہے ) اس شخص کی دعا احسان کرنے والے کے حق میں قبول کی جاتی ہے ۔ (فیض القدیر، حرف الدال، رقم الحدیث:4201،702/3، دارالکتب)

ہمیں الله تعالیٰ سے کیا مانگنا چاہیے
ویسے تو انسان الله تعالیٰ سے جو چاہے مانگ سکتا ہے اور مانگنا چاہیے، جو بھی ضرورت ہو الله تعالیٰ کے سامنے پیش کرنی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ بعض دعائیں ایسی ہیں جن کی اہمیت احادیث سے معلوم ہوتی ہے ، لہٰذا اگر ان دعاؤں کا بھی ساتھ ساتھ اہتمام ہو ۔ تو ان شاء الله بہت خیروبرکت کا باعث ہو گا۔

دنیا وآخرت کی خیر وعافیت طلب کرنا
حضرت عباس رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی، کہ اے الله کے رسول ! مجھے کچھ سکھلائیے جو میں الله تعالیٰ سے مانگوں۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله تعالیٰ سے عافیت طلب کرو ، حضرت عباس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں کئی دن ٹھہرارہا، پھر میں حاضرخدمت ہوا اور عرض کیا کہ اے الله کے رسول! مجھے کچھ سکھلائیے جو میں الله سے مانگوں۔ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے الله کے رسول کے چچا! الله تعالیٰ سے دنیا وآخرت کی عافیت مانگو۔ ( سنن الترمذی، ابواب الدعوات، فضل سوال العافیة والمعافاة ، رقم الحدیث:3514)

عافیت طلبی الله تعالیٰ کو بہت پسند ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ماسئل الله شیئاً احب إلیہ من العافیة“․
ترجمہ:نہیں مانگی گئی الله تعالیٰ سے کوئی چیز زیادہ محبوب اس سے کہ ان سے عافیت مانگی جائے۔( سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب من فتح لہ منکم باب الدعاء، رقم الحدیث:3548)

چناں چہ عافیت طلب کرنے کی دعا اس طرح کرے :”اللھم انی اسئلک العفو والعافیة فی الدنیا والاخرة“․
اے الله! میں آپ سے دنیا وآخرت میں عافیت طلب کرتا ہوں ۔ (الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الأذکار والدعوات، ابواب الدعاء، باب ادعیہ جامعة ما یعلمھا النبي صلی الله علیہ وسلم بعض أصحابہ،291/14، دارالحدیث)

شب قدر میں مانگنے کی ایک جامع دعا
حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی، کہ یا رسول الله! بتلائیں اگر مجھے کسی طرح پتہ چل جائے کہ شب قدر کون سی رات ہے تو میں اس رات میں کیا دعا مانگوں ؟ توآپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہو :اللھم انک عفو، تحب العفو، فاعف عنی“․

اے الله! آپ بہت درگز رکرنے والے ہیں اور در گزر کرنے کو پسند فرماتے ہیں، پس آپ مجھ سے در گزر فرمائیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب فی فضل سوال العافیة المعافاة، رقم الحدیث:3513)

سب دعاؤں کو شامل ایک مختصر دعا
حضرت ابو امامہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے (کسی خاص موقع پر) بہت سی دعائیں فرمائیں ، جن میں سے ہمیں کچھ بھی یاد نہ رہا، پس ہم نے عرض کیا اے الله کے رسول ! آپ نے بہت سی دعائیں فرمائیں، جن میں سے ہمیں کچھ بھی یاد نہ رہا ( اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ سب دعائیں مانگیں، پس ہم کیا کریں؟) تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ بتلاؤں جس میں وہ ساری دعائیں آجائیں؟ کہو:”اللھم انا نسألک من خیر ماسألک منہ نبیک محمد صلی الله علیہ وسلم، ونعوذبک من شر ما استعاذ منہ نبیک محمد صلی الله علیہ وسلم، وانت المستعان، وعلیک البلاغ، ولا حول ولا قوة إلا بالله“․

اے الله! ہم آپ سے وہ سب کچھ مانگتے ہیں ، جو آپ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے آپ سے مانگا ہے اور ہم ان سب چیزوں سے آپ کی پناہ چاہتے ہیں جن سے آپ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے پناہ چاہی ہے اور آپ ہی سے مدد چاہی جاتی ہے اور مقاصد اور مرادوں تک پہنچنا آپ ہی کے کرم پر موقوف ہے اور کچھ طاقت وقوت نہیں، مگر آپ ہی کے مدد سے۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3521)

وہ دعائیں جو آپ صلى الله عليه وسلم کثرت سے مانگتے تھے
حضرت شہر بن حوشب رحمہ الله تعالیٰ نے حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا سے پوچھا کہ اے ام المؤمنین! جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ کے پاس ہوتے تھے ، یعنی آپ کی باری کا دن ہوتا تھا، تو آپ صلی الله علیہ وسلم کی بکثرت دعا کیا ہوتی تھی ؟ تو حضرت ام سلمہ رضی الله عنہا نے فرمایا! کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی زیادہ تر دعا یہ ہوتی تھی:” یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک“․

اے دلوں کو پلٹانے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ ( سنن الترمذی، ابواب الدعوات، رقم الحدیث:3522)

اسی طرح یہ دعا بھی آپ صلی الله علیہ وسلم بکثرت کرتے تھے: ”اللھم ربنا اتنا فی الدنیا حسنة، و فی الآخرة حسنةً، وقنا عذاب النار․“(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الاذکار والداعوات، باب ماجاء فی أدعیة کان النبی صلی الله علیہ وسلم یکثر الدعاء بہا،286/14)

حضرت انس رضی الله عنہ جو آپ صلی الله علیہ وسلم کے خادم خاص تھے، فرماتے ہیں کہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم کو اکثر یہ دعا کرتے ہوئے سنتا:”اللھم انی اعوذبک من الھم والحزن، والعجز والکسل، والبخل والجین، وضلع الدین وغلبة الرجال․“

اے الله! غم، رنج، عجز ،سستی، بخل اور بزدلی اور شدت قرض اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ( الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطعمة، باب الحیس، رقم الحدیث:5109)

دعا مانگنے کا طریقہ
انسان الله تعالیٰ سے ہر وقت دعا کرسکتا ہے اور ضروری نہیں کہ جب بھی دعا مانگے ، تو ہاتھ اٹھائے بلکہ بغیر ہاتھ اٹھائے بھی دعا کرسکتا ہے

تاہم نمازوں کے بعد یا کسی اور وقت میں اہتمام سے دعا مانگنا چاہتا ہے تو قبلہ رو ہو کر دونوں ہاتھ سینے تک اٹھائے او رہاتھوں کی ہتھیلیاں آسمان کی جانب ہو ں اور دونوں ہاتھوں کے درمیان فاصلہ ہو ۔ (الفتاوی العالم گیریہ، کتاب الکراہیة، الباب الرابع،318/5 ،رشیدیہ)

اس کے بعد ان آداب کے لحاظ کے ساتھ دعا شروع کرے، جو ماقبل میں گزر چکے ہیں اور پھر جب دعا کرے تو سب سے پہلے اپنے لیے دعا کرے ، پھر دوسروں کے لیے کرے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم جب انبیا کا ذکر فرماتے ، تو فرماتے:”رحمة الله علینا وعلی ھود وصالح․“(الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل ، کتاب الاذکار والدعوات ابواب الدعاء، باب تأکد حضور القلب فی الدعاء،272/14 ،دارالحدیث)

جب دعا مانگ لے تو دونوں ہاتھوں کو منھ پر پھیر لینا چاہیے، حضرت ابن عمر رضی الله عنہ فرماتے ہیں:
جب آپ صلی الله علیہ وسلم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے تو دونوں کو نہیں گراتے تھے یہاں تک کہ ان کواپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب ماجاء فی رفع الأیدی عند الدعاء، رقم الحدیث:3386)

دعا آہستہ آواز سے کرنی چاہیے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ آہستہ اور پوشیدہ دعا ان ستر دعاؤں کے برابر ہے جو بلند آواز سے سب کے سامنے کی جائیں۔ (فیض القدیر، حرف الدال، رقم الحدیث:704/3,4206 ،دارالکتب)

مسئلہ: اگر امام دعا مانگ رہا ہے تو مقتدی امام کی دعا پر آمین کہے یا اپنی دعا مانگے، دونوں درست ہیں۔( فتاوی محمودیہ، باب الذکر والدعاء بعد الصلوات،709/5)

انسان دوسرے سے دعا کی درخواست کر سکتا ہے
انسان دوسروں سے بھی دعا کی درخواست کر سکتا ہے ، اسی طرح بڑا چھوٹے سے دعا کی درخواست کر سکتا ہے۔

حضرت عمر رضی الله عنہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے عمرہ کے لیے جانے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ای اخي أشرکنا فی دعائک ولاتنسنا“․

بھائی! ہمیں اپنی دعاؤں میں شریک کرنا، بھو ل نہ جانا۔

فرض نمازوں کی بعد اجتماعی دعا ثابت ہے
آپ صلى الله عليه وسلم فرض نمازوں کے بعد دعا فرماتے تھے، چناں چہ بخاری شریف کی روایت ہے : ”ان رسول الله صلى الله عليه وسلم کان یقول فی دبر کل صلاة اذ ا سلم: لا الہ الا الله وحدہ، لا شریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، وھو علی کل شيء قدیر، اللھم، لا مانع لما اعطیت، ولا معطی لما منعت، ولا ینفع ذا الجد منک الجد“․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الدعوات، باب الدعاء بعد الصلوٰة، رقم الحدیث:6330)

یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ پڑھتے، لا الہ إلا الله… الخ“․

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ الله تعالیٰ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں ”فیحمل ما ورد من الدعاء بعد الصلوٰة علی انہ کان یقولہ بعد أن یقبل بوجہہ علی أصحابہ․“( فتح الباری، کتاب الدعوات، باب الدعاء بعد الصلوٰة،160/14، دارالکتب)

یعنی آپ ا سے نماز کے بعد جو دعا منقول ہے ، یہ دعا آپ ا صحابہ کرام رضی الله تعالی عنہم کی طرف چہرہ انور پھیرنے کے بعد فرماتے تھے۔

توجب آپ صلى الله عليه وسلم سے فرض نمازوں کے بعد دعا ثابت ہے اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے تھے، جیسے کہ ماقبل حضرت ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت سے معلوم ہوا اور آپ صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام رضی الله عنہم کی طرف چہرہ انور کرکے دعا فرماتے تھے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم تو دعافرماہے ہوں او رصحابہ کرام ایسے ہی بیٹھے ہوں اور آپ صلى الله عليه وسلم کے ساتھ دعا نہ مانگ رہے ہوں؟!

حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے : ”ویستجب للامام ان یستقبل بعدہ، ای بعد التطوع، وعقب الفرض، ان لم یکن بعدہ نافلة یستقبل الناس،ویستغفرون الله ثلاثا…، ثم یدعون لانفسھم والمسلمین…را فعی ایدیھم…، ثم یمسحون بھا وجوھھم فی آخرہ․“ (حاشیہ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، کتاب الصلوٰة، فصل فی الأذکار الواردة بعد الفرض، ص:315,314 ،رشیدیہ)

یعنی امام کے لیے مستحب یہ ہے کہ فرض نماز کے بعد اگر فرض کے بعد سنتیں نہیں، وگرنہ سنتوں کے بعد لوگوں کی طرف رخ کرے اور استغفارو اوراد وغیرہ جو حدیث میں وارد ہیں ان کو پڑھنے کے بعد اپنے لیے اور مسلمانوں کے لیے دعا کریں، اس حال میں کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہوئے ہوں اور دعا کے آخر میں ہاتھ اپنے چہروں پر پھیر لیں۔

نماز کے بعد دعا کا پہلا اور اخیر لفظ جہراً کہنا
فتاوی محمودیہ میں ہے:
سوال… دہلی میں رواج ہے کہ کثرت مقتدین کی وجہ سے جب امام دعا شروع کرتا ہے تو ایک شخص الحمدلله رب العالمین اور ختم دعا کے وقت ، برحتمک إلخ بالجہر کہہ دیتا ہے، تو یہ جائز ہے یا نہیں؟

الجواب… حامداً ومصلیا:
جائز ہے، مگر اہتمام کی ضرورت نہیں۔ (فتاوی محمودیہ، باب الذکر والدعاء بعد الصلوٰة،692/5) (جاری)

Flag Counter