شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ ٴخورشید سے
عالم اسلام کی موجودہ صورت حال سے شکستہ دل ہونے کی ضرورت نہیں
مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی
پھر بھی ہمیں یہ گلہ ہے کہ ہم غالب نہیں
گذشتہ ہفتہ عالمی خبروں میں ایک دل دہلانے والی اور خون کے آنسو رلانے والی خبر ہم سب کی نظروں سے گذری ،یہ الگ بات ہے کہ ہم میں سے اکثر اس کو پڑھ کر غالباً آگے بڑھ گئے ،لیکن اس میں مجھ جیسے دسیوں طالب علموں کے لیے عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات کے پس منظر میں اٹھنے والے اس سوال کا جواب تھا کہ حق پر ہونے کے باوجود ہم اہلِ اسلام اس قدر مغلوب اور مظلوم کیوں ہورہے ہیں اور اللہ تعالی کی مددکیوں نہیں آرہی ہے ؟ خبر یہ تھی کہ لبنان ،شام اورمصر وغیرہ جاکر دادعیش دینے والے عرب نوجوان وہاں کے غیر موزوں سیاحتی حالات کی وجہ سے آج کل برطانیہ کا رخ کررہے ہیں ،وہاں ان کی عیاشی ،شراب وکباب اور موج مستی میں روزانہ خرچ ہونے والی فضول خرچی واسراف کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ وہ اپنے استعمال میں رکھنے والی رولکس اور ڈیلکس کاروں کا یومیہ صرف کرایہ ہی19/ہزار ڈالر یعنی بارہ لاکھ روپے روزانہ اداکررہے ہیں،کچھ ہی دنوں پہلے ایک عرب ملک سے بھی ایک خبر آئی تھی کہ وہاں ایک نئے اٹلانٹک نامی ہوٹل کے افتتاح کے موقع پرآتش بازی پر سمندر میں موجود226کشتیوں کے ذریعہ ڈیڑھ سو ملین یعنی پندرہ کروڑ روپئے چندگھنٹے میں پھونک دیے گئے،اس فضول خرچی کے نظارہ کے لیے فلم انڈسٹریز سے وابستہ دوہزار لوگوں کو مدعو کرکے ان پر دوسو ملین یعنی بیس کروڑ روپے خرچ کیے گئے اور خود اس ہوٹل کی تعمیر پرپچھتّرارب روپے کی لاگت آئی۔
ان ہی اخبارات میں دوسری طرف یہ بھی تشویش ناک اور نیند اڑانے والی خبر تھی کہ شام سے لبنان،ترکی اور اردن وغیرہ ہجرت کرکے جانے والے اور وہاں کیمپوں میں مقیم پندرہ لاکھ سے زائد پناہ گزینوں میں سے بیشتر لوگ ایک ایک لقمہ کے لیے ترس رہے ہیں،دمشق کے جنوب میں واقع یرموک کیمپ میں نو ّے دن کے مسلسل محاصرہ کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ لوگوں نے وہاں جامع مسجد کے ایک امام کے فتوی پر عمل کرتے ہوئے اپنی بھوک مٹانے اور جان بچانے کے لیے کتے ،بلیوں اور مردہ جانوروں تک کو کھانا شروع کردیا ہے، نوزائیدہ معصوم بچوں کی بڑی تعداد اپنی بھوک وفاقہ کش ماوٴں کی چھاتیوں میں دودھ کے نہ ہونے کی وجہ سے بلک بلک کر جان دے رہے ہیں،برماکے مظلوم مسلمان اپنے گھروں سے بے گھر ہوکر آسمان کی چھتوں تلے بے سہارا پڑے ہوئے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں ،غزہ کے فلسطینی مظلومین ظالم مصری فوجوں کی طرف سے سرحدوں اور سرنگوں کے اچانک بندکیے جانے کی وجہ سے غلّوں سے محروم ہوگئے ہیں اور ہرطرف سے محصور ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا چولہا جلنابھی ان کے یہاں ممکن نہیں ہے۔
سوال عذاب کے ٹلنے کا نہیں بڑے عذاب کے نہ آنے کا ہوناچاہیے
عالم اسلام، بالخصوص عالم عرب، کے موجودہ حالات کو ہم جب سامنے رکھتے ہیں اوروہاں کے شہزادوں اور خوش حال ومتمول طبقہ کی عیاشی وفضول خرچی ،اسلام دشمنوں سے ذاتی مفادات اور اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر مسلم وعرب حکم رانوں کی اسلام دشمنوں سے سازباز،اسلام پسندوں سے ان کی نفر ت ووحشت اور عامة المسلمین پر انسانیت سوزمظالم پر ان کی مجرمانہ خاموشی وغیرہ کا قرآن وحدیث کی روشنی میں ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ اب روایتی مسلمانوں سے ملت کی قیادت چھین کرکسی اور کے حوالہ کی جانے والی ہے اور غالباً قیادت کے اس خلا کو مغرب کے حمیت پسندنومسلموں یا پھر مشرق بعید وبرصغیر کے غیرت مندمسلمانوں سے پرکیا جانے والاہے ، اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ ہم جب کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس میں موجود متمول اور خوش حال طبقہ کو اپنے فسق وفجور میں آگے بڑھنے کی چھوٹ دے دیتے ہیں ،پھر ہمارا وعدہ پورا ہوتاہے اور ہم پوری قوم کو تباہ وبرباد کردیتے ہیں﴿وإذااردناأن نھلک قریة امرنامترفیھاففسقوا فیھا فحق علیہا القول فدمّرناھا تدمیرا﴾ ،آج ملت اسلامیہ میں عوام میں توبڑھتی دین داری،ودین پسندی، لیکن اس کے برخلاف خواص وحکم رانوں اور سرمایہ داروں میں اسلام کے مقابلہ میں ذاتی مفادات کی ترجیح کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے صاف نظر آرہاہے کہ اللہ تعالی کا یہ وعدہ جلد ہی پورا ہونے والاہے۔
عالم اسلام، بالخصوص عالم عرب، کی موجودہ صورت حال و اخلاقی انارکی کے اس پس منظر میں اب ہمارا سوال یہ ہونا چاہیے کہ حالات کے اس قدر دگرگوں ہونے اور پانی سرسے اونچا ہونے کے باوجود ہم کیسے بچے ہوئے ہیں ؟اور ہم پر وعدہ خداوندی کے مطابق عذاب کیوں نہیں آرہاہے ؟اس کی بھی وجہ سن لیجیے، رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم نے روروکر اپنی امت اور ہمارے حق میں التجا کی تھی کہ اے رحیم وکریم آقا ! پچھلی امتوں کی طرح میری امت کو اس کی نافرمانی واخلاقی انارکی کی وجہ سے اجتماعی طور پر ہلاک نہ فرمانا۔اللہ رب العزت نے اپنی غیر معمولی رحمت و رافت کی وجہ سے اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی اس دعاکو شرف قبولیت سے نوازا،اگر رحمت خداوندی کا یہ مظہر وعدہ خداوندی کی شکل میں نہ ہوتاتو ہم کب کے ہلاک کردیے جاتے اور ہماری جگہ دعوتی فرض منصبی کی ادائیگی کے لیے دوسری قوم آگئی ہوتی ۔
لیکن حالات سے مایوس ہونے کی بھی ضرورت نہیں
مسلمان عالمی سطح پر اس وقت جن حالات سے دوچار ہیں بظاہر ایسا لگتاہے کہ پوری اسلامی تاریخ میں اس طرح کے حالات نہیں آئے،مشرق سے مغرب تک مسلمان بڑی کس مہ پرسی کی حالت میں ہیں،روزانہ کے اخبارات میں خبروں کا دوتہائی حصہ فلسطین،شام ،افغانستان،مصر،برما،بنگلہ دیش،ترکی ،تیونس،یمن اور لیبیاوغیرہ کے مسلمانوں کی مظلومیت کی خبروں سے بھرارہتاہے ،پوری دنیا سے اوسطاً 500 مسلمانوں کی روزشہادت کی خبریں آرہی ہیں،خود مسلمانوں کے آپسی انتشار واختلاف ،خانہ جنگی اور ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہونے اور اس کے نتیجہ میں بہنے والے خون خرابے اور پوری دنیاکے سامنے ملت اسلامیہ کے تماشہ بننے کی خبروں سے ایک عام موٴمن کا دل بھی بیٹھ جاتاہے،لیکن ہمیں ان حالات سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ،اس سے دس گنابرُے اور خراب حالات کا ہماری ملت سامنا کرچکی ہے اور ہربار وہ اپنی خدا اعتمادی اور بصیرت دینی وفراست ایمانی سے اس کا کام یاب مقابلہ بھی کرچکی ہے ،آپ کو یہ یاد ہوگا کہ ہمارے آپسی انتشار اور خانہ جنگی کی انتہااس وقت ہوگئی تھی جب اس کی زد میں خانہ کعبہ جیسا مرکز اسلام بھی آگیاتھا ، 64ھ میں خودمسلمانوں کی طرف سے کعبة اللہ کے غلاف کو جلایا گیا،اس کی چھت کو گرایاگیا ،اس پر سنگ باری کی گئی اور اس کا اس طرح محاصرہ کیاگیا کہ کئی دنوں تک اس کے طواف سے مسلمان محروم رہے، جنگ جمل 36ھ میں حضرت علی وحضرت عائشہ کے درمیان غلط فہمیوں کی بنا پر خود مسلمانوں میں سے دس ہزار سے زائد صحابہ کرام وتابعین عظام شہید ہوئے ،حضرت عائشہ کی طرف سے لڑنے والے تیس ہزار مسلمانوں میں سے نو ہزار اور حضرت علی کی طرف سے لڑنے والے بیس ہزار مسلمانوں میں سے ایک ہزار ستر مسلمان کام آئے،یہ سب یہودی منافق عبداللہ بن سبا کی طرف سے مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی ایک کام یاب ومنصوبہ بند سازش تھی، جس کا بعد میں فریقین کو احساس بھی ہوگیا، اس کے بعد جنگ صفین میں حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان بھی موجودہ عراق میں کوفہ کے جنوب میں ایک شدید جنگ 37ھ میں ہوئی ، 63ھ میں اسی طرح کی مسلمانوں کی ایک اورآپسی خانہ جنگی میں مدینہ منورہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، جس میں تین سوشرفا قریش وانصار کے علاوہ ایک ہزار مسلمان خودمسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے اور مسجد نبوی بھی کئی دنوں تک نمازیوں سے محروم رہی،خود نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے فوراً بعد حضرت ابوبکر نے جن حالات کا سامنا کیا اس طرح کے حالات کا آج ہم تصوّر بھی نہیں کرسکتے ،ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت سامنے آئے تو دوسری طرف ایک بڑی تعداد نے زکاة دینے سے انکار کردیا،ایک طرف اسلامی دارالخلافہ پر حملہ کی سازش کی خبریں آئیں تو دوسری طرف مرتدین اسلام نے ناک میں دم کردیا،لیکن جس قوت ایمانی اور اولوالعزمی کے ساتھ صدیق اکبر نے محض اللہ تعالی کے فضل سے اس کاکام یاب مقابلہ کیا وہ اسلامی تاریخ میں ان ہی کا حصہ تھا، 656ھ میں تو عالم اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ وہ سانحہ پیش آیا جو بقول مشہور موٴرخ علامہ ابن الاثیر پوری اسلامی ہی نہیں، بلکہ انسانی تاریخ میں بھی پیش نہیں آیا ،اسلامی دارالخلافہ بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی اور اٹھارہ لاکھ مسلمان بیک وقت صرف بغداد میں شہید کردیے گئے،ان کی لاشوں کی بدبو سینکڑوں میل دورملک شام میں دمشق تک پھیل گئی ۔
جہاں مسلمان مغلوب ہوئے وہاں اسلام غالب آیا
لیکن ان سب واقعات کا آپ تجزیہ کریں گے تو آپ کو صاف نظرآئے گا کہ ایک طرف مسلمان مغلوب ہوئے تو دوسری طرف اسلام غالب آیا ، مشرق میں مسلمانوں کی مظلومیت نے مغرب میں اسلام کو اپنی تاثیر دکھانے کا موقع دیا،تاتاریوں نے مسلمانوں کو زیرکیاتو اسلام نے تاتاریوں کو اپنااسیر بنایااور کچھ ہی دنوں میں ظالم وسفاک تاتاری قوم خود حلقہ بگوش اسلام ہوگئی،آج افغانستان اور چیچنیا وغیرہ میں موجود مسلم مجاہدین ان ہی نومسلم تاتاریوں کی نسل سے تعلق رکھتے ہیں،عہد صدیق اکبر میں ان مذکورہ بالاگوناگوں مسائل کے باوجود جزیرة العرب کے باہر اسلام دوسری طرف اپنادائرہ وسیع کررہاتھا، جنگ جمل وصفین میں مسلمانوں کی خانہ جنگی کے باوجود اسی زمانہ میں اسلام ایشیا وافریقہ سے نکل کر یورپ وآسٹریلیا میں اپنے جھنڈے گاڑ رہاتھا، 1857ء میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے ساتھ ہی پوری دنیا میں مسلمانوں کی سیاسی عمار ت کی چھت بیٹھ گئی اور ایک کروڑ ستاون لاکھ مربع کلومیٹر سے مسلم ممالک کا رقبہ 45لاکھ مربع کلومیٹر میں آکر سکڑ گیا،روس ،امریکہ ،برطانیہ اورفرانس وغیرہ کی بندربانٹ میں دوتہائی مسلم ممالک کو ہڑپ کرلیاگیا،لیکن صرف ڈیڑھ سوسال میں یہ رقبہ جو ہم سے چھین لیا گیا تھا اس سے دوسوگنا رقبہ اللہ تعالی نے ہمیں واپس دیا،نتیجہ یہ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں رقبہ میں 21فیصد کے ساتھ مسلم ممالک تین کروڑ سے زائد رقبہ کے مالک ہیں اور 228ممالک میں 58آزاد مسلم ممالک عالم اسلام کے پاس ہیں اورصرف گذشتہ7سالوں میں مسلمانوں کی آبادی میں 39کروڑ کا اضافہ ہواہے،اسی طرح11/ستمبر کے امریکی حادثہ کو لیجیے ،اس واقعہ کے حوالہ سے پوری دنیا میں مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھائے گئے ،افغانستان کو تباہ وبرباد کیاگیا،عراق پر حملہ کیاگیا،ترکی کو نشانہ بنایاگیا،لیکن دوسری طرف آپ دیکھیے کہ اسی حادثہ نے یورپ کی ایک بڑی تعداد کو اسلام کو سمجھنے پر آمادہ کیا،نتیجہ یہ ہواکہ گذشتہ 13سالوں میں یورپ اورامریکہ میں جتنے لوگ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اورقرآن مجید کی طلب میں اضافہ ہوا اتنے پچھلے پچاس سال میں نہیں ہوا،ان سطور کو تحریر کرتے ہوئے کل ہی یعنی 12کتوبر2013ء کو رائٹرکی عالمی یورپی نیوزایجنسی نے ایک ایسی خوش کن خبر نشر کی جس سے ہم جیسے کمزور ایمان والوں اور عالم اسلام کے حالات سے متاثراور دل برداشتہ وافسردہ لوگوں کا بھی غم ہلکاہوگیا،اس نے اکونامک ٹائمز کے حوالہ سے لکھا کہ امریکہ میں ۱۱/ستمبر کے حادثہ کے بعد صرف برطانیہ میں گذشتہ تیرہ سال میں ایک لاکھ سے زائد برطانوی بندگان خدا نے اسلام قبول کیا اور اس وقت بھی سالانہ 5200لوگ صرف برطانیہ میں حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں،دوسری طرف اس نے لکھا ہے کہ خود امریکہ میں بھی اس سے چھ گنازیادہ لوگ اس وقت اسلام میں داخل ہورہے ہیں اور ان کا سالانہ اوسط تیس ہزار سے زیادہ ہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے خود اپنے عہد صدارت میں اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ میں مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے زائد ہوگئی ہے اور ایک چوتھائی مسلمان ان میں نومسلم ہیں۔غرض یہ کہ آپ نے دیکھاکہ کسی ایک جگہ مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کی گئی تو دوسری جگہ اسلام نے سراٹھاکراپنے وجود کا ثبوت دیا،ایک خطہ میں وہ مظلوم ہوئے تو دوسرے علاقہ میں فاتح بن کر اپنے زندہ ہونے کا اعلان کیا،مشرق وسطی کے موجودہ حالات میں بھی ہمیں یقین ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کا پھراسی طرح ظہور ہونے والا ہے اور مسلمانوں کی مغلوبیت اسلام کی غالبیت کی شکل میں سامنے آنے والی ہے۔ #
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے اُدھر نکلے ،اُدھر ڈوبے ادھرنکلے
ظاھری زوال ہی اسلامی بیداری کا پیش خیمہ ثابت ہوا
1924ء میں خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرکے اسلام دشمن عناصر مطمئن ہوگئے کہ اب ہم نے مسلمانوں کی رہی سہی سیاسی ساکھ بھی ختم کردی اور ان کی سیاسی بساط لپیٹ دی گئی ، 1948ء میں قلب اسلام میں فلسطین پرقبضہ کرتے ہوئے اسرائیل کو وجود بخش کر مغرب نے یہ سمجھا کہ اب مسلمان سرنہیں اٹھائیں گے،پھر 1967ء میں بیت المقدس پر بھی اسرائیل کا قبضہ کراکے مسلم دشمن طاقتیں اس خوش فہمی میں مبتلا ہوگئیں کہ مسلم قیادت نے صہیونیت کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنی آخری بے بسی کا ثبوت دیا،لیکن آپ کو یہ معلوم کرکے نہایت حیرت انگیز مسرت ہوگی کہ گذشتہ نصف صدی میں یہی تینوں عالمی واقعات مسلمانوں میں سیاسی بیداری کا نقطہٴ آغاز ثابت ہوئے،مسلم امت نے یہیں سے ایک نئی کروٹ لی ،خواب غفلت سے بیدار ہوئی ،تعلیم پر مسلمانوں کی ازسرنوتوجہ شروع ہوئی ،اصلاحی وفکری اسلامی تحریکات کو کھل کرمیدان میں آنے کا موقع ملا،نئی تعلیم یافتہ مسلم نسل کااسلام پر ازسرنو اعتمادبحال ہوا اور اسی مدت میں ان کو یورپ ومغرب میں اسلام کے تعارف کے غیر معمولی دعوتی مواقع بھی حاصل ہوئے،1967ء میں قبلہٴ اول پر صہیونیت کے ناجائز قبضہ کے بعدہدایت سے محروم بندگان خدا کو اسلام کو سمجھنے میں جتنی کام یابی ملی پچھلے سوسال میں نہیں ملی ،ہمیں بصیرت وفراست کی نگاہوں سے ان ناگفتہ بہ حالات کے دعوتی تجزیہ سے یہ اطمینان بھی ہوتاہے کہ عالم اسلام میں پائی جانے والی اس بے بسی کی کیفیت اور ملت اسلامیہ کی مظلومیت اور مسلم امت کے حق میں بظاہراسلام دشمن طاقتوں کی منصوبہ بندکوششوں میں کام یابی سے مسلمانوں کو تو ظاہری اعتبار سے وہ نقصان پہچانے میں کام یاب رہے لیکن اسلام کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکے،اس کے انقلاب آفریں پیغام کی تاثیر کے بڑھتے قدم کو روکنے میں ان کو ذرہ برابر بھی کامیابی نہیں ملی ،لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کو تو انہوں نے شہید کیا ،ان سے ان کی زمینوں کو چھینا ،ملّت کی خواتین کو بیواوٴں اور معصوم نونہالوں کو یتیموں کی صف میں لاکھڑا کردیا،ناقابل یقین حدتک ان کو مالی نقصان پہنچایااورسیاسی طور پر ان کو پسپابھی کیا،لیکن وہ اسلام کے تئیں مسلمانوں کے غیر متزلزل یقین واعتماد کی دولت کو ان سے چھین نہیں سکے ،دین حق سے ان کی وابستگی میں کمی نہیں کرسکے ،اسلام سے نسبت پر ان کے افتخار کی دولت کو واپس نہیں لے سکے، بلکہ یہی آزمائشیں ،مسائل ومصائب نہ صرف ان کو ان کے مذہب ودین سے قریب کرنے کا ذریعہ بنے بلکہ اس سے بڑھ کرمعرفت خداوندی سے محروم بندگان خداکی ایک بڑی تعداد کو اپنے مالک حقیقی کی پہچان کرانے کا بھی ذریعہ بنے ،ہالینڈمیں گستاخانہ کارٹون بناکر وہ سمجھتے رہے کہ ہم خالق کائنات کی طرف سے حیاة طیبہ اور سیرت مطہرہ کی صورت میں انسانیت کے لیے دیے گئے صاف وشفاف آئینہ کو دھندلاثابت کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے،لیکن ان کی یہ کوشش خام خیال ثابت ہوکراس وقت سامنے آئی جب یورپ کی تعلیم یافتہ، غیر مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کوحضرت محمدصلی الله علیہ وسلم کی مثالی شخصیت کے مطالعہ اور اس کو سمجھنے کی طرف اسی کارٹون کے خلاف مسلمانوں میں عالمی سطح پربرپاہونے والے ہنگامہ نے آمادہ کیااور اس میں سے کئی لوگوں کو اسلام کی دولت بھی نصیب ہوئی ،گذشتہ دنوں فیس بک پر جب ایک بے ہودہ فلم کے ذریعہ سیرت طیبہ کو داغ دار کرنے کی ناکام کوشش ہوئی توہم نے مولانا ابوالحسن علی ندوی اسلامک اکیڈمی بھٹکل کی طرف سے اسی فیس بک پر غیرمسلموں کے لیے عالمی سطح پر ایک تحریری مقابلہ کا اعلان کیااور رحمت عالم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات میں امن کاپیغام کے موضوع پر سب سے اچھے تین مضامین لکھنے والے غیر مسلموں کو دس لاکھ روپے کے نقد ترغیبی انعامات کا اعلان ہوا،تاکہ وہ براہ راست اس بہانہ اسلام کا مطالعہ کرسکیں اور توحید ورسالت کے پیغام سے بھی روشناس ہوسکیں،اس سلسلہ میں ہم نے ان کو ویب سائٹ بناکر اس موضوع پر توحید ورسالت اور سیرت کے موضوع پر موادبھی فراہم کیا ،آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ صرف چھ ماہ میں الحمدللہ 37ملکوں سے تین ہزار سے زائد تعلیم یافتہ غیر مسلم بندگان خدانے اس مقابلہ میں حصہ لیا اور جب مقالات موصول ہوئے تو اس میں سے کئی شرکاء نے اس دوران براہ راست اسلام کو سمجھنے کے بعد شرک وکفر سے تائب ہونے کا صاف اعلان کیا ، اس نایاب وتاریخی موقع سے فائدہ اٹھاکر جنہوں نے براہ راست اسلا م کو سمجھااور ان کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوا ان کی تعداد تو اس سے کئی گنا زیادہ تھی۔
لیکن ایک تشویشناک پہلو
مذکورہ بالاحقائق کی روشنی میں ہمیں اس کا تواندازہ ہوگیا کہ الحمدللہ مسلمانوں کے مغلوب ومظلوم بن کرعالمی نقشہ میں سامنے آنے کے باوجود اسلام غالب آرہاہے ،مسلمانوں کے ذاتی ،سیاسی اور اقتصادی نقصان کے باوجود دین حق اپنااثر پہلے سے زیادہ دکھارہاہے اور اسلام کے دائرہ میں برابر وسعت پیداہورہی ہے، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں میں بھی دینی بیداری آرہی ہے ،پہلے سے زیادہ مساجد تعمیر ہورہی ہیں،لوگ مسجدوں کا رخ کررہے ہیں، نمازیوں میں برابراضافہ ہورہاہے، دینی اجتماعات میں پہلے سے زیادہ لوگ شریک ہورہے ہیں،حج وعمرہ کرنے والوں کی تعداد میں ہرسال حیرت انگیز اضافہ ہورہاہے ،متمول وخوش حال گھرانہ کے لوگ اب یورپ جاکر اپنی فیملی کے ساتھ سیروتفریح کے بجائے حرمین شریفین میں اپنے اہل وعیال کے ساتھ حاضری کو ترجیح دے رہے ہیں،حفاظ وعلماء کی تعداد بڑھ رہی ہے ،مدارس ودینی مراکزاپنادینی دائرہ وسیع کررہے ہیں، اسلامی تنظیمیں پہلے سے زیادہ قائم ہورہی ہیں،نئے نئے رفاہی وسماجی کاموں کے ادارے تیزی سے وجود میں آرہے ہیں اور واقعی ان اداروں سے کام بھی ہورہاہے ۔ لیکن ان سب کے باوجودایک تشویشناک پہلویہ ہے کہ ہماری ملت میں ملّی شعور ابھی ٹھیک سے بیدار نہیں ہوا ہے ،دین سے وابستگی تو بڑھ رہی ہے، لیکن دشمنوں کی چالوں کوسمجھ کراس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ نہیں ہورہاہے ،اعدائے اسلام کے منصوبوں کو سامنے رکھ کر بصیرت وفراست سے اس کے مقابلہ کی قوت میں ترقی نہیں ہورہی ہے ،مسلمان خود تو دین پر قائم رہناچاہتے ہیں، لیکن اسلام برائے انسانیت اور اللہ تعالی کے رب المسلمین کے بجائے رب العالمین ہونے کے قرآنی وآفاقی پیغام کو عام کرنے کی ضرورت کامکمل احساس نہیں ہورہاہے ،اللہ تعالی کی زمین پراللہ تعالی ہی کے احکام کے نفاذ، اقامت دین ،خالص اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور محرمات ومنکرات سے پاک خالص دینی بنیادوں پر مالیا ت ،اقتصادیات اورسیاسیات وسماجیات کے اسلامی نمونوں کو انسانیت کے سامنے لانے اور بلکتی ،تڑپتی ،سسکتی انسانیت کے سامنے اس کا ماڈل پیش کرنے کی کوئی بڑی منصوبہ بندی نہیں ہورہی ہے، ہماری طرف سے اس کے لیے بھرپورکوشش تو درکنار، اس کے لیے کی جانے والی کوششوں میں ہاتھ بٹانے یا کم ازکم تنقید وتنقیص نہ کرکے اس کی حوصلہ شکنی کے بجائے خاموش ہی رہ کر اس کو آگے بڑھنے دینے کی بھی اپنے اندر سکت وجرات اب باقی نہیں رہ گئی ہے ،ورنہ کیا وجہ ہے کہ ہالینڈ میں بننے والے گستاخانہ کارٹون پر تو عالم اسلام میں ہنگامہ برپاہوتاہے اور پوری ملت تڑپ اٹھتی ہے اوریقینا یہ احتجاج محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم سے ہمارے والہانہ تعلق کی وجہ سے عین فطری اور مطلوب بھی تھا،لیکن اسی محسن انسانیت صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین اسلام کے خلاف برپاکی جانے والی مغربی سازش کومصر والجزائر میں کام یاب ہوتادیکھ کر غیرت منداور حمیت پسند مسلمانوں کا دل تڑپ نہیں اٹھتاہے؟!یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ امریکی ویورپی طاقتیں صرف اسلام پسندحکومتوں اور دینی سلطنتوں کوبدنام کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، بلکہ ان کو صہیونیت کی ناپاک اسرائیلی حکومت کے لیے خطرہ بننے والے اشتراکی حکم رانوں مثلًاعراق کے صدام حسین اورلیبیاکے معمر قذافی سے بھی اتنی ہی نفرت ہے جتنی ترکی کے طیب اردگان اور مصر کے محمد مرسی جیسے اسلام پسندقائدین سے ہے،عالم اسلام میں اس کے خلاف احتجاجات نظرنہیں آئے ،حسنی مبارک کے خلاف اٹھنے والی تحریک میں اخوان کا ساتھ دینے والے آخرصرف 52فیصد ووٹرکیوں تھے؟بقیہ48فیصد مصریوں کواسلام سے نفرت و وحشت رکھنے والی سیاسی پارٹیوں سے محبت کیوں تھی اور ان کے حق میں انہوں نے ووٹ کیوں دیا؟
ملت اسلامیہ میں نظرآنے والے اس ملی احساس کے فقدان اور بے ضمیری کے محرکات اور اسباب کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو اس کابنیادی سبب موجودہ نصاب ونظام تعلیم نظرآتاہے ،پہلے وہی لوگ مغرب سے مرعوب اور دین بیزارہوتے تھے جو یورپ وامریکہ جاکروہاں کے نظام تعلیم سے وابستہ رہ کر واپس آتے،اب دشمنوں نے بڑی حکمت عملی اور عیاری سے اس نظام تعلیم کو مسلم ملکوں ہی میں اس طرح رائج کردیاہے کہ مسلمانوں کو احساس بھی نہیں ہوتاکہ وہ کس طرح غیر شعوری طور پر اس نظام تعلیم کی وجہ سے اپنے دین سے وابستہ رہنے کے باوجود اپنے مذہب پر خوداعتمادی کی دولت سے خاموشی سے محروم ہورہے ہیں،یہ ایک مستقل موضوع ہے، جس پر ان شاء اللہ آئندہ تفصیلی روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔