صحیح یہ ہے کہ وہ( نماز میں )عورت کی طرح ہےیعنی اُس کیلئے بھی یہی مستحب ہے کہ وہ اپنے جسم کے بعض حصے کو بعض کے ساتھ ملائے(یعنی سمٹ کر نماز پڑھے)۔صاحبِ بیان کے مطابق قاضی ابو الفتوح نے یہ کہا ہےکہ خنثیٰ کیلئے (مَرد کی طرح)کشادہ ہوکر یا (عورت کی طرح)سمٹ کر نماز پڑھنا مستحب نہیں اِس لئے کہ اُس کی دونوں جہتوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے سے اولیٰ نہیں ،لیکن مذہب پہلا قول ہی ہے اور اِسی کا علّامہ رافعینے قطعی فیصلہ فرمایا ہے اِس لئے کہ یہ زیادہ احتیاط پر مبنی ہے۔(المجموع شرح المہذب:3/409 ،410)
فقہِ شافعی کی مزید کتابیں دیکھئے : (المنہاج القویم شرح المقدمۃ الحضرمیۃ:103)(الاِقناع فی حلّ الفاظ ابی شجاع:1/146)(تحفۃ المحتاج فی شرح المنھاج:2/76)
فقہِ حنبلی:
الاِقناع میں ہے:”والمرأة كالرجل في ذلك إلا أنها تجمع نفسها في الركوع والسجود وجميع أحوال الصلاة وتجلس متربعة أو تسدل رجليها عن يمينها وهو أفضل“ترجمہ:اور عورت مَرد کی طرح ہے مگر یہ کہ وہ نماز میں رکوع سجدوں اور نماز کی تمام حالتوں میں اپنے آپ کو سمیٹے اور چار زانو بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بیٹھے اور یہی افضل ہے۔(الاِقناع:1/125)
المبدع فی شرح المقنع میں ہے:”(وَالْمَرْأَةُ كَالرَّجُلِ فِي ذَلِكَ كُلِّهِ) لِشُمُولِ الْخِطَابِ لَهُمَا لِقَوْلِهِ: «صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أُصَلِّي» (إِلَّا أَنَّهَا تَجْمَعُ نَفْسَهَا فِي الرُّكُوعِ، وَالسُّجُودِ) أَيْ: لَا يُسَنُّ لَهَا التَّجَافِي، لِمَا رَوَى زَيْدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ