مرد و عورت کی نماز میں یکسانیت کا قول ائمہ اربعہ میں سے کسی کا بھی نہیں ، یہ صرف ہمارے زمانے کے غیر مقلّدین ہی کا نظریہ ہے ۔
فقہِ مالکی:
خلاصہ فقہیہ میں ہے علّامہ محمد عربی قرویفرماتے ہیں:”أمَّا الْمَرْأَة فَتكُونُ مُنْضَمَّةً فِي جَمِيعِ أحْوَالِهَا“۔ترجمہ: نماز کے اندرعورت اپنے تمام احوال میں سمٹ کر رہے گی۔(الخلاصۃ الفقہیۃ علی مذھب السادۃ المالکیۃ:79)
اِسی صفحہ میں دو چار سطروں کے بعد ہے:”وتفريج الفخذين للرجل فَلَا يصفهما بِخِلَاف الْمَرْأَة“ترجمہ: اور(تشہد میں بیٹھنے کی حالت میں )رانوں کے درمیان کشادگی کرنے کا حکم مَردوں کیلئے ہےلہٰذا اُسے چاہیئے کہ اپنی رانوں کو نہ ملائے،بخلاف عورت کے ،کیونکہ وہ اپنی رانوں کو ملاکر رکھے گی۔(الخلاصۃ الفقہیۃ علی مذھب السادۃ المالکیۃ:79)
شرح کبیرمیں ہے:”يُنْدَبُ كَوْنُهَا مُنْضَمَّةً فِي رُكُوعِهَا وَسُجُودِهَا“عورت کیلئےرکوع اور سجدہ سمٹ کرکرنا مستحب ہے۔(الشرح الکبیر مع الدسوقی:1/249)
علّامہ دسوقیلکھتے ہیں :”قَوْلُهُ: يُنْدَبُ كَوْنُهَا مُنْضَمَّةً أَيْ بِحَيْثُ تَلْصَقُ بَطْنَهَا بِفَخِذَيْهَا وَمِرْفَقَيْهَا بِرُكْبَتَيْهَا “عورت کا سمٹ کر رکوع و سجدہ کرنا مستحب ہے،یعنی اِس طرح سجدہ کرے کہ اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ اور اپنی کہنیوں کو گھٹنوں کے ساتھ چپکالے۔(حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر:1/249 ،250)
علّامہ قیروانی مالکیلکھتے ہیں :”وَهِيَ فِيْ هَيْأةِ الصَّلَاةِ مِثْلُهُ غَيْرَ أَنَّهَا تَنْضَمُّ وَلَا تُفَرِّجُ فَخِذَيْهَا وَلَا عَضُدَيْهَا وَتَكُوْنُ مُنْضَمَّةً مُنْزَوِيَةً فِيْ جُلُوسِهَا وَسُجُودِهَا وَأَمْرِهَا كُلِّهِ“ترجمہ: عورت کی نماز مَرد کی طرح ہے،سوائے اِس کے کہ