حمام کا لفظ اور اُس کامعنی :
لفظاً : ”حمّام“تشدید کے ساتھ پڑھا جاتا ہے اور اِسی کے ہم معنی ایک لفظ ”مُسْتَحَمّ“ بھی آتا ہے ۔حمّام کا لفظ مذکّر اور مؤنّث دونوں طرح پڑھا جاتا ہے ۔”حَمّامِی “ اُس شخص کو کہتے ہیں جو حمام کا چلانے والا اور اُس کا منتظم ہو ۔
معنیً : لغت میں اِس کا معنی ہر اُس جگہ کے آتے ہیں جہاں گرم پانی سے غسل کیا جاتا ہو ۔الْمَوْضِعُ الَّذِي يُغْتَسَل فِيهِ بِالْحَمِيمِ وَهُوَ الْمَاءُ الْحَارُّ۔لیکن اب اس کے لئے گرم پانی ہونا شرط نہیں ۔ہر نہانے کی جگہ کو ”حمام“ کہتے ہیں خواہ وہاں گرم پانی دستیاب ہو یا نہیں ۔(الموسوعة الفقهية الکويتية :81/154)
حمام کی قدیم اور جدید شکلیں :
زمانہ قدیم میں حمام کی شکل یہ ہوتی تھی کہ لوگ اُس میں مشترکہ نہایا کرتے تھے ،اور عموماً اِس کا انتظام اِس لئے کیا جاتا تھا کہ اگر پانی کہیں دستیاب نہ ہو یا کمیاب ہو تو حمام میں بسہولت مل سکے ، سردیوں میں لوگوں کو نہانے کے لئے گرم پانی میسّر آئے ، مسافروں کو نہانے اور صفائی ستھرائی حاصل کرنے میں سہولت ہو ، لیکن ساتھ ساتھ اِس میں اخلاقی برائیاں بھی تھیں ، بایں طور کہ مردو زن کا اختلاط ہوتا تھا ، ستر کے معاملے میں کافی بے اعتدالیاں پائی جاتی تھیں ، یہی وجہ ہے کہ حمام سے متعلّق احادیث میں بکثرت اِس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ بغیر اِزار کے ہر گز کوئی حمام میں داخل نہ ہو ۔ اب اِسی کی موجودہ شکل ”سوئمنگ پولز“ ہیں جہاں مشترکہ نہانے کا انتظام ہوتا ہے ،اِس کے علاوہ ساحلِ سمندر یا کسی تالاب اور جھیل وغیرہ میں بھی لوگ مشترکہ طور پر نہاتے ہیں ، ان سب کو جدید حمام کی شکلیں کہا جاسکتا ہے ۔واللہ اعلم ۔
ہمارے زمانہ میں حمام کی ایک شکل یہ ہوتی ہے کہ اُس میں مشترکہ طور پر نہایا نہیں جاتا ، بلکہ انفرادی طور پر بعض جگہ خصوصاً حجام کی دوکانوں میں غسل خانے بنے ہوتے ہیں جہاں نہانے کا انتظام ہوتا ہے اور سردیوں میں گرم پانی بھی دستیاب ہوتا ہے ، یہ احادیث میں بیان کردہ اُن مشترکہ حمام کی شکل نہیں ہے ، لہٰذا اس میں نہاتے ہوئے ستر کھولنا جائز ہے کیونکہ اس میں بے پردگی نہیں پائی جاتی ۔و اللہ اعلم ۔