احادیث طیّبہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺنے ابتداءً حمام میں داخل ہونے کی مطلقاً ممانعت فرمادی تھی ، اُس کے بعد مردوں کو ازار کے ساتھ(ستر کا اہتمام کرتے ہوئے )اجازت دی اور بغیر ازار کے ممنوع قرار دیا ، لیکن عورتوں کی ممانعت کا معاملہ بدستور باقی رکھا ، اِس سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا حمام میں جانا مطلقاً منع ہے ۔(عون المعبود :11/31)
بعض روایات میں عورتوں کے مریضہ ہونے یا نفاس والی ہونے کی صورت میں حمام میں داخل ہونے کی جو اجازت دی ہے اُس سے مراد یہ ہے کہ پانی نہ ہو یا سردی شدید ہو اور وہ پانی گرم کرنے پر قادر نہ ہوں تو ضرورت کے تحت حمام میں غسل کرسکتی ہیں ۔(عون المعبود :11/31)
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں حمام سے متعلّق نبی کریمﷺکے ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو حمام میں داخل ہونے سے مطلقاً منع کیا جائے گا اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کا معاملہ ستر کے حوالے سے بہت زیادہ مبالغہ پر مبنی ہے۔قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ:بِهَذِهِ الْأَخْبَارِ تُنْهَى النِّسَاءُ عَنْ دُخُولِ الْحَمَّامَاتِ عَلَى الْإِطْلَاقِ، وَذَلِكَ لِمَا بُنِيَ عَلَيْهِ أَمْرُهُنَّ مِنَ الْمُبَالَغَةِ فِي السَّتْرِ.(شعب الایمان:7384)
حضرت نافع جوکہ حضرت عبد اللہ بن عمر کے مشہور شاگرد اور آزاد کردہ غلام ہیں ، اُن سے کسی نے عورتوں کے حمام میں نہانے کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے یہ جواب دیا :ہم اسے حرام تو نہیں سمجھتے لیکن اپنی عورتوں کو اس سے منع بھی ضرور کرتے ہیں ۔لَسْنَا نَرَاهُ حَرَامًا، وَلَكِنَّنَا نَنْهَى نِسَاءَنَا عَنْهُ.(السنن الکبریٰ للبیہقی :14809)
عورتوں کے لئے مخصوص حمام کا حکم :
وہ حمام اور سوئمنگ پولزجو صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہو، مردوں کا وہاں کسی بھی طرح کا کوئی بھی عمل دَخل نہ ہو ، نیز اُس میں آنے جانے نہانے وغیرہ میں کسی قسم کی کوئی بھی بے پردگی نہ ہو، اور خود بھی ستر کا اہتمام کیا جائے دوسری عورتیں بھی ستر کا اہتمام کرتی ہوں تو کیا ایسے حمام میں عورتوں کا نہانا جائز ہے یا نہیں ، اِس بارے میں فقہاء کرام کے تین قول ہیں :