کیونکہ یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی بڑے شر کی راہ ہموار نہ ہوجائے۔ اگر خروج میں زیادہ خونریزی ہورہی ہو اور حکمران کے ہٹانے کا کام ممکن نظر نہ آتا ہو یا متبادل صالح قیادت میسر نہ ہو تو پھر خروج سے باز رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح خروج کرنے والے نہ صرف خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسرے صالحین کے حوصلے پست کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جب تک خروج کے لیے مناسب موقع نہ ملے، ضروری ہے کہ حکمران کے ناجائز کاموں اور غلط فیصلوں پر تنقید جاری رکھی جائے، اس کے ناجائز احکام ماننے سے انکار کیا جائے، اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہوسکے شریعت کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
تبدیلی کے لیے امام ابوحنیفہ کا طریقِ کار
مسلمانوں کی تاریخ میں جب بھی حکمران کے خلاف خروج ہوا ہے تو حکمران کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والوں میں کچھ نے بغاوت اور خروج کی راہ اختیار کی اور کچھ نے اس کے نتیجے میں ہونے والی خونریزی کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے اس میں شرکت نہیں کی لیکن حاکم کے ظلم کو ظلم کہتے رہے اور اس کے غیر شرعی احکام نہ مانتے ہوئے اس کے ظلم و ستم کو سہتے رہے۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد دیگر ائمہ اہل بیت کے خروج کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یا تو ان کے نزدیک حاکم کی معزولی واجب ہو چکی تھی، یا کم از کم جائز ہوچکی تھی اور ان کے اجتہاد کے مطابق اس کے ہٹانے کے سلسلے میں جو خونریزی متوقع تھی وہ اس شر کی بہ نسبت کم تھی جو اس حاکم کے حکمران رہنے کی صورت میں وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ دوسری طرف جن اہل علم نے خروج اور بغاوت کی راہ اختیار نہیں کی ان کے نزدیک خروج کی صورت میں ہونے والی خونریزی حاکم کے شر سے زیادہ تھی۔ تاہم ہر جائز و ناجائز میں کسی نے حاکم کی اطاعت کا درس نہیں دیا اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کی ہر پالیسی کے لیے شرعی جواز ڈھونڈنے کا کام کیا۔
امام ابوحنیفہ نے جو طریق اختیار کیا اس کی چیدہ چیدہ خصوصیات یہ ہیں:
٭ انہوں نے ظالم حکمرانوں کے ظلم کی روک تھام کو شرعی فریضہ قرار دیا اور اس سلسلے میں خروج کو جائز بلکہ واجب قرار دیا۔ جب بھی کسی صالح شخصیت کی قیادت میں نظام کے بدلنے کے لیے کوشش ہوئی انہوں نے اس کا ساتھ دیا لیکن چونکہ ان کی دور رس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ خروج کا راستہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوگا اس لیے انہوں نے عملا اس میں شرکت سے گریز کیا۔
٭ بنو امیہ اور بنو عباس کی جانب سے قضا کے عہدے کی پیشکش کو وہ مسلسل مسترد کرتے رہے اور