ڈاکٹر محمد مشتاق احمد*
ظالم یا غاصب حکمران کے خلاف
خروج کا مسئلہ
شرعا یہ جائز نہیں ہے کہ کوئی غیرمسلم مسلمانوں کا حاکم ہو۔ اس کی قانونی وجوہات بالکل واضح ہیں۔ اسلامی قانون کا مسلمہ اصول یہ ہے کہ غیرمسلم کو مسلمانوں پر ولایت عامہ حاصل نہیں ہے، جبکہ امارت و قضا کے لیے ولایت عامہ ضروری ہے۔ حدود اور قصاص کے معاملات میں غیر مسلم کی گواہی ناقابل قبول ہے۔ چنانچہ حدود اور قصاص کے مقدمات میں غیر مسلم قاضی نہیں بن سکتا۔ حاکم کے فرائض میں ایک اہم فریضہ حدود اللہ کا نفاذ ہے۔ اس لیے کافر مسلمانوں کا حاکم نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح کسی فاسق کو قاضی یا حاکم بنانا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ جب فاسق کی گواہی پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی اور کسی مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا تو وہ خود سزا دینے یا فیصلہ کرنے کا اختیار کیسے حاصل کرسکتا ہے؟ تاہم اگر کوئی فاسق اقتدار پر قبضہ کرلے اور اس کا اقتدار مستحکم ہوجائے، یا حکمران بننے کے بعد وہ فاسق ہوجائے، تو اس کی حکومت کی کیا حیثیت ہے؟ اس مسئلے پر یہاں بحث کی جائے گی ۔
ظالم یا غاصب حکمران اور قاضی کی معزولی کا وجوب
اس امر پر کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسے حکمران کے ان احکام کی اطاعت جائز ہے جو شریعت کے خلاف نہ ہوں، بالکل اسی طرح جیسے اگر حاکم نے کسی فاسق کو قاضی بنایا تو اس کے وہ فیصلے نافذ ہوں گے جو شریعت کے مطابق ہوں۔ اس جواز کو فقہائے کرام قاعدہ اضطراری کے تحت ذکر کرتے ہیں اور قرار دیتے ہیں کہ اگر فاسق قاضی یا حاکم کے صحیح فیصلوں کو باطل قرار دیا جائے تو اس سے بہت بڑا فساد پیدا ہوتا ہے۔ پس جب تک اس فاسق حاکم یا قاضی کو ہٹانے کی قوت بہم نہ پہنچائی جاسکے، صحیح فیصلوں میں ان کی اطاعت کی جائے گی۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب قاضی یا حاکم منصب قضا پر فائز ہونے یا حاکم بننے کے بعد فسق کا ارتکاب کرے۔
________________________
*ایسوسی ایٹ پروفیسر قانون بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد