حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی *
مسلم معاشرہ اور مغربی فکر و ثقافت
مسلمانوں کے لیے علوم انسانی کے میدان میں مناسب یہ ہے کہ اولاً اس سرمایہ پر توجہ مبذول کریں جو رسول V کی سیرت اور ان کی تعلیمات، صحابہ کرام، تابعین عظام نیز اس راہ پر چلنے والے ادباء ، علمائ،محققین اور مفکرین اور اصحاب سیاست و سماجیات سے حاصل ہوا ہے، پھر یورپ کے قدیم و جدید علوم میں سے تقاضائے زندگی کے مطابق کچھ چیزیں لیں جو ان کی طبیعت سے ہم آہنگ اور ان کے لیے مفید ہوں، یہی طریقہ مسلمانوں کے عظیم الشان تاریخی مقام و مرتبہ اور انسانی شرف و کرامت کے شایان ہیں، لیکن ان آخری صدیوں میں مشرقی اقوام اور مسلم امت سخت پسماندگی کے دور سے گزری، وہ وسائل زندگی سے محروم تھی اور کمزوری و ذلت کا شکار، جب کہ یورپین اقوام فاتحانہ شان و عظمت کے ساتھ آگے بڑھیں، اپنے استعماری مقاصد کے لیے ملکوں کو فتح کیا ، وہاں کے خزانوں پر قبضہ کیا اور دوسری اقوام کو اپنی تقلید کے آستانہ پر جھکا دیا، ان سب حالات نے مسلم اقوام کو مرعوب کردیا، وہ سمجھنے لگیں کہ یقینا یورپ ہی کی کاوشوں کے نتیجہ میں زندگی کے علوم و معارف وجود میں آئے ہیں اور ان ہی سے دوری نے مشرقی اقوام کو پسماندگی ، سستی اور کاہلی کا شکار بنایا ہے، اقوامِ مسلم نے ساتھ ہی یہ بھی گمان کرلیا کہ یورپ اس بات کا مستحق ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں اس کی اتباع کی جائے، ہر صنفِ علم میں اس کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جائے، اور یورپ کی علمی ترقیات، لادینی نظام اور اباحیت پسندانہ کردار سب میں اس کی تقلید کی جائے، یہ سوچ کر بعض مشرقی اقوام نے زندگی کے گوشوں اور اس کی تمام شکلوں میں یورپ کی اتباع کی، اور یورپ ہی کی مقلد چینی اور جاپانی قوم کو بھی معیار سمجھا، چین و جاپان کے پاس خود نظام زندگی نہیں تھا، اس تقلید ہی کو انہوں نے اپنے لیے معیار بنایا۔
لیکن امت مسلمہ کا معاملہ دوسرا تھا، وہ اسلام کا دائمی آسمانی دستور حیات رکھتے تھے، ان کے لیے اس بات کا جواز نہیں تھا کہ ادنیٰ پر فریفة ہوکر وہ اعلیٰ کو چھوڑ دیں:
أتستبد لون الذ ھوأدنی بالذ ھوخیر'' (البقرة : ١٦)
____________________
*صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ