ان کی جانب سے ظلم و ستم سہتے رہے۔ اس طرح انہوں نے ان کی ظالمانہ اور غاصبانہ حکومت کو جواز عطا کرنے سیگریز کا راستہ اختیار کیا۔
٭ انہوں نے سرکاری قاضیوں کے فیصلوں پر بیلاگ اور کاٹ دار تنقید کا سلسلہ جاری رکھا جس کی وجہ سے ان قاضیوں اور عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا۔
٭ جب بھی حکمران نے ان سے کسی قانونی مسئلے میں رائے لی تو انہوں نے بغیر کسی خوف اور لالچ کے شریعت کا صحیح مقتضا اس کے سامنے رکھا اور اس بنا پر بھی انہیں بارہا اذیتیں برداشت کرنا پڑیں۔
٭ انہوں نے اسلامی قانون کی تفصیلی جزئیات کی تدوین کا عظیم الشان پراجیکٹ شروع کیا اور اس قانون کے اصول و قواعد اس طرح منضبط کیے اور ایسی مضبوط عمارت تعمیر کی کہ حکومت کے لیے ممکن ہی نہیں رہا کہ وہ اس قانون کو نظرانداز کردیں اور عدالتوں سے اپنی خواہشات کے مطابق فیصلے حاصل کرسکیں۔
٭ امام ابوحنیفہ نے عدالتی اور قانونی نظام کے صحیح طور پر چلانے کیلئے ایسے رجال کار کی تربیت کی جنہوں نے اسلامی شریعت کی بالادستی یقینی بنائی۔ اگر امام ابویوسف کی کتاب الخراج کے صرف دیباچے پر ہی نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے کس لہجے میں خلیفہ وقت کو شرعی احکام کی پابندی کا درس دیا۔ اسی طرح اگر امام محمد بن الحسن الشیبانی کی کتاب الاصل میں صرف کتاب الاکراہ اور اس میں بالخصوص باب تعدی العامل کی جزئیات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کس طرح آمریت اور مطلق العنانی کے سامنے بند باندھا۔
اس طرح انہوں نے خروج کے بجائے نظام کو اندر سے تبدیل کرنے کی راہ اختیار کی اور تاریخ کی گواہی یہ ہے کہ وہ اس میں بہت زیادہ حد تک کامیاب رہے۔
نوٹ:
آئندہ الحق رسالہ قارئین کو بذریعہ وی پی ارسال نہیں کیا جائیگا ، براہ کرم سالانہ ماہنامہ الحق زر تعاون بذریعہ منی آرڈر 350/-روپے بنام دفتر الحق جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو ارسال فرمائیں او رخط و کتابت کرتے وقت اپنے خریداری نمبر کا حوالہ بھی ضرور تحریر کریں۔
(رابطہ نمبر 0315 9983366 نثار محمد)
ادارہ