بحث و نظر ڈاکٹر عصمت اللہ*
غزوہ سِندھ و ہِندکی پیشنگوئی
حدیث غزوة الہند اور اس کے عصری معنویت کے حوالے سے مسلسل مباحثے جاری ہیں، ہندوستانی علماء اس کا مفہوم کچھ اور سمجھتے ہیں جبکہ پاکستانی کچھ اور، اس حوالے سے محدثین کرام کی تشریحات کیا ہیں؟ کن کتابوں میں وارد ہے؟ اوراسنادی حیثیت کے علاوہ اس کی عصری تطبیق کیا ہے؟ ڈاکٹر عصمت اللہ صاحب نے زیرنظرتمام مباحث کو انتہائی خوش اسلوبی کیساتھ جمع کیا ہے…… (ادارہ)
________________________
غزوہ ہند و سندھ اسلامی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے، اس کا آغاز خلفائے راشدین کے عہد سے ہوا جو مختلف مراحل سے گذرتا ہوا آج 2016 میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک جاری رہیگا۔ اس کی دینی بنیادوں پر غور کریں تو حقیقت یہ ہے کہ ایک لحاظ سے غزوہ ہند، نبوی غزوات و سرایا میں شامل ہے، ہماری نظر میں نبوی غزوات کی بلحاظِ زمانہ وقوع دو بڑی قسمیں ہیں:
١) غزواتِ ثابتہ یا واقعہ: یعنی وہ جنگیں جو رسول اکرم Vکی زندگی میں، وقوع پذیر ہو چکیں، سیرت نگاروں اور محدثین کی اصطلاح میں ان غزوات کی دو قسمیں ہیں:
غزوہ: وہ معرکہ جس میں آپ Vنے بذاتِ خود شرکت فرمائی اور جنگ میں صحابہ کی کمان اور قیادت کی۔ تعداد کے اعتبار سے تقریبا 27 ایسی جنگیں ہیں جن میں نبیۖ نے بذاتِ خود شرکت فرمائی۔ (١)
سریہ: محدثین اور سیرت نگاروں کی اصطلاح میں وہ جہادی مہمات جن میں آپ نے بذاتِ خود شرکت نہیں فرمائی بلکہ کسی صحابی کو قیادت کے لیے متعین فرمایا، سریہ کہلاتی ہیں، اور کتبِ حدیث و سیرت میں تفصیلی تذکرہ موجود ہے.
زمانی تقسیم کے لحاظ سے یہ دونوں قسمیں غزواتِ واقعہ کے ذیل میں آتی ہیں۔
٢) غزواتِ موعودہ: اس قسم میں وہ سب جنگیں اور غزوات شامل ہیں جو نبی اکرمV کی وفات کے بعد آپ کی بشارت اور پیشین گوئی کے نتیجہ میں وقوع پذیر ہوئیں، یا مستقبل میں کسی وقت وقوع پذیر ہونگی۔
___________________
*پروفیسر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد