Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2016ء

امعہ دا

55 - 65
امام زید بن علی کے خروج
	اسی طرح امام ابو حنیفہ نے امام زید بن علی کے خروج کے موقع پر ان کی مالی مدد کی اور لوگوں کو بھی ان کا ساتھ دینے کے لیے کہا۔ دیگر کئی مواقع پر بھی بنو امیہ اور بنو عباس کے ظالم حکمرانوں کے خلاف نکلنے والوں کا ساتھ امام ابوحنیفہ نے دیا۔ اسی وجہ سے ان کو بعض لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہاں امام جصاص واضح کرتے ہیں کہ اگر کسی نے فاسق حاکم کی حکومت کے جواز کا قول امام ابوحنیفہ کی طرف منسوب کیا ہے تو یا تو یہ اس نے قصدا جھوٹ باندھا ہے، یا وہ ایک دوسرے مسئلے میں امام ابوحنیفہ کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا ہے:
	پس اگر کسی کو غلطی لاحق ہوئی ہے اور وہ امام ابوحنیفہ کے قول اور سارے عراقی فقہا کی طرف جھوٹ منسوب نہیں کر رہا، تو وہ غلطی ان کے اس قول کی بنا پر لاحق ہوئی ہوگی کہ کسی ظالم حکمران کی جانب سے مقرر کیا گیا قاضی اگر خود عادل ہو تو اس کے احکام نافذ ہوں گے اور اس کے فیصلے صحیح ہوں گے، اور یہ کہ ان حکمرانوں کے پیچھے نماز جائز ہے باوجود اس کے کہ وہ فاسق اور ظالم ہیں۔
	پس ظالم حکمرانوں کے ہٹانے کی کوشش اور ان کی جانب سے کسی اہل شخص کا کوئی عہدہ قبول کرنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک دو مختلف امور ہیں۔ آگے امام جصاص نے اس موقف کے حق میں قاضی شریح کا طرز عمل بھی پیش کیا ہے جو خلافت راشدہ کے بعد عہد بنی امیہ میں بھی قاضی کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی طرح صحابہ و تابعین نے ظالم حکمرانوں کے وظائف قبول کیے کیونکہ یہ وظائف ان کا قانونی حق تھا۔
خروج کے وجوب کی شرائط
	کسی ظالم و جابر حکمران کے ہٹانے کی کوشش کا فیصلہ بہت سارے عوامل کو دیکھنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس کوشش میں بڑی خونریزی کا امکان ہوتا ہے۔ اس فیصلے کے لیے ایک اہم عامل یہ ہے کہ کیا بغاوت کرنے والے اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ حکمران کی قوت سے ٹکرا سکیں؟ نیز حکمران کے ہٹانے میں جو خونریزی ہوگی کیا وہ حکمران کے برقرار رہنے کے شر سے کم ہے یا زیادہ؟ ہر بغاوت کے موقع پر ان دونوں سوالات پر اہل علم کی آرا مختلف ہو سکتی ہیں۔
امام ابراہیم کی شہادت 
	امام عبد اللہ بن مبارک روایت کرتے ہیں کہ جب امام ابراہیم الصائغ کی شہادت کی خبر امام ابوحنیفہ کو پہنچی تو وہ اتنا روئے کہ ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں ان کی موت نہ واقع ہو جائے۔ پھر امام ابوحنیفہ نے
Flag Counter