اس تحریک کا آغاز ادبی اور ثقافتی حلقوں میں، عہد وسطیٰ سے پہلے کے یونانی اور قدیم رومی ادب کی تجدید کے ذریعے انسانیت کو زندہ کرنے کیلئے ہوا، بعد کے مراحل میں اس ادبی تحریک نے سیاسی رنگ اختیار کیا اور پھر اگلے مرحلے میں دین، معنویت ، وحی و آخرت اور کلیسا کی مخالفت کا رخ اختیار کر لیا۔ انسان پرستی کے تاریخی اعتبار سے مختلف معنی اور تفسیریں موجود ہیں اس تحریک نے پوری مغربی سر زمین کو متاثر کیا۔
انسان پرستانہ فکر کے اہم اصول:
(١) انسان محوری (٢) انسانی آزادی اور اختیار پر تاکید (٣)انسانی عقلیت پسندی پر افراطی عقیدہ (٤)فطرت پرستی (بجائے دین)۔ (٥) پلورالیزم۔(کثرتیت یعنی ہر انسان کا عقیدہ اسی کیلئے درست ہے)
ب۔ سیکولرازم:
انگریزی زبان میں Secularبمعنی دنیوی دراصل لفظ Sacredیعنی مقدس (دین سے مربوط) کے مقابل ہے۔ لہٰذا سیکولر، یعنی جو کچھ اس جہان سے متعلق ہے اتنا ہی خدا اور الواہیت سے دور ہے۔ اصطلاحی معنی میں یہ عقیدہ کہ تعلیم و تربیت، اخلاقیات اور سیاست وغیرہ کو مذہب سے جدا ہونا چاہیے۔
مغربی معاشرے کے صاحبان اختیار نے جدید تہذیب اور تمدن کی بنیادوں میں ایک طرف تو دین عیسائیت سے بے تو جہی برتی تو دوسری طرف فکری اور نظری نظام کی تشکیل میں سیکولرازم کو اہمیت دی اور سیکولرازم کی تقویت کا باعث بننے والے اصول اور قواعد بنائے جو دراصل مندرجہ بالا انسان پرستانہ تصورات کے ہی ثمرات ہیں۔ بہ طور مختصر سیکولرازم کی فکری اساس درج ذیل عناصر پر مشتمل ہیں:
(١) انسان پرستانہ معیار
(٢) عقلیت پسندی(Rationalism)
(٣) علم محوری (Scientism)
(٤) آزادی(Liberalism) (٥) جدیدیت بمعنی نفی دین (Modernism)
عصر حاضر میں جدید مغربی تہذیب یعنی لیبرل ڈیمو کریسی کی تمام ترا ساس یہی ہیومنزم اور سیکولرازم ہیں۔ لبرل ازم ایک زمانے میں ظالمانہ حکمرانی کے خلاف اہم ترین نظریہ خیال کیا جاتا تھا، لیکن انیسویں صدی میں لیبرل حکو متوں کے وجود میں آنے کے بعد معاشرے کے طاقت ور طبقے کا ضعیف طبقے پر حکمرانی کیلئے ایک ہتھیار اور وسیلے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔مغربی تعلیم و تربیت کے تصور کائنات سے متعلق (ہستی شناسانہ) مبانی انہی بنیادی نظریات کا ماحصل ہیں۔ نتیجتاً تربیتی امور پر حاکم اصول، اہداف اور طریق کار انہی مبانی کے بل بوتے پر تشکیل پاتے ہیں۔ (بشکریہ شاہراہ علم)