کانٹ کا عینیت پسند مکتب، جو عقل پرستی اور تجربہ پرستی کا آمیزہ ہے، ہیگل کا ڈایا لیکٹک اور مارکس کا ملحدانہ مادی پر ستانہ مکتب، ویلیام، جیمز اور جان ڈیوی کا مصلحت پسندی کا مکتب یا کیگور کا وجودیت پرستانہ مکتب۔ ان میں سے ہر ایک نے مختلف زمان و مکان میں ظاہر ہو کر دین کی مخالفت اور ملحدانہ تہذیب کے فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اُن مکاتب کے باہمی اختلافات کے باوجود جیسے ان میں سے بعض کے رہنما مذہبی تھے اور بعض کے مادہ پرست اور بعض موارد میں تو ان کے اختلافات انتہائی بنیادی نوعیت کے بھی تھے، مگر سب کے سب ایک مسئلہ میں متحد اور متفق تھے اور وہ کلیسا اور دین کی حکمرانی کی مخالفت تھی، چاہے جو اس منحرف عیسائی دین میں اصلاح کے خواہش مند تھے یا دین کو خرافات اور معاشرے کیلئے نشہ قرار دیتے تھے، سب ہی نے ملحدانہ اور مغربی انسان پرستانہ تہذیب کے پھیلنے کے اسباب مہیا کیے۔
آج یہی انسان پرستی اپنی جدید شکل میں انسان کے خدا کو خود انسان قرار دیتی ہے، یہاں تک کہ مذہبی امور میں بھی اس طرح انسان پرستانہ تصورات کی تلقین کی جاتی ہے، کہ مرنے کے بعد تدفین کے موقع پر بھی دفن کے مراسم کے لیے ایسا لٹریچر تیار کیا گیا ہے، جس کی چھوٹی سی عبارت میں بھی خدا کی طرف اشارہ موجود نہیں۔ جدید دور کے انسان پرستوں نے انسان کی ابدی زندگی اور موت کے بعد حیات کے انکار جیسی کوششوں سے انسانی ضمیر کو صرف اسی چند سالہ زندگی تک محدود کرنے اور اس پر راضی رکھنا چاہا ہے۔ اس تناظر میں انسان پرستانہ مکتب میں تعلیم و تربیت کا نظام اس کے اصول، طریقہ کار اور نصاب (Syllabus) ایک خاص شکل اختیار کر جائیں گے۔ تعلیم و تربیت کی حدود اس مادی جہان تک محدود ہو کر رہ جائیں گی اور انسان کی مادی ضروریات اور رجحانات کی سطح سے آگے نہ بڑھ پائیں گی، لہٰذا انسان اس طرح تعلیم حاصل کرے گا اور تربیت پائے گا کہ فقط اپنی ضروریات کی فراہمی اور اپنی ہر خواہش کی تسکین حاصل کر پائے اور یہی مغربی انسانی تعلیم و تربیت کے مراحل میں سب سے اعلیٰ کمال کا مرحلہ ہے۔
مختصر یہ کہ مغربی تربیتی نظام کے ہستی شناسانہ تصورات میں انسان پرستی (Humanism)اور دین سے جدائی (Secularism)سیکولرازم دو اہم ترین محور ہیں، جن کا مختصر تعارف ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
الف: انسان پرستی (Humanism)
انسان پر ست، انسان اور اس میں موجود توانائیوں کی طرف افراطی توجہ کی بنا پرتمام الوہی اور ماوراطبیعی اقدار اکا انکار کرتے ہیں اور اس جہان ہستی کا محور اور معیار انسان کو قرار دیتے ہیں۔ دراصل انہوں نے انسان کو خدا کی جگہ لا بٹھایا ہے۔ یہ تصورات دراصل عہد وسطیٰ میں بادشاہوں، زمین داروں (فیوڈلز) اور عیسائی پادریوں (علما) کے ظالمانہ رویوں کے خلاف رد عمل کے طور پر اُبھرے تھے۔ پہلے پہل