مثال حضور اکرمV کی مثالی زندگی اور صحابہ کرام کی مجاہدانہ کردار ہے آئیے دیکھتے ہیں کہ عرب کا وہ انتہائی گمراہ اور جہالت میں ڈوبا ہوا معاشرہ جس میں کائنات کا ہر گناہ اور ہر فساد موجود تھا کس طرح ہدایت کا تابندہ سورج بن کر تمام دنیا کیلئے اسلام اور امن ،خوشحالی اور کامیابی والا معاشرہ بن گیا اور ٢٣سال کے مختصر عرصے کی محنت کے بعد وہ قوم پوری دنیا کیلئے ایک مثال اور نمونہ بن کر ابھرتی ہے یہ انقلاب کیسے آیا؟
حضور ۖ کی پالیسی: حضور اکرم V نے ان ٢٣ سالوں میں سے ١٣ سال مکہ مکرمہ میں گزارے اس مکی دور میں نہ جہاد کا حکم ،نہ کوئی سرداری اور حکمرانی ہے بلکہ اس وقت حکم یہ ہے کہ اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کا بدلہ بھی مت لو بلکہ برداشت کرتے رہو صبر کا دامن ہاتھ سے جانے مت دینا مکی زندگی کی تکالیف آپ حضرات کئے سامنے کئی کئی مرتبہ ذکر کرچکا ہوں حضرت بلال حبشی کو تپتی ہوئی ریت پر لٹایا جاتا سینے پر پتھر کی سلیں رکھی جاتی ،عمار کے والد حضرت یاسر کو بیدردی سے شہید کیاگیا حضرت سمیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے شہید کیا گیا اور یہ مطالبہ کیا جارہا تھا کہ لا الہ الااﷲ محمد رسول اﷲ کا انکار کرو، جس وقت صحابہ کرام پر یہ ظلم کیا جا رہا تھا تو اس کے جواب میںصحابہ کرام کم از کم ایک تھپڑاور لات تو مار سکتے تھے لیکن اس وقت حکم یہ تھا کہ تکلیف برداشت کرتے رہوبدلہ لینے کی اجازت نہیں۔لہٰذا مکی زندگی کے٢٣ سال اس طرح گزرے کہ اس میں حکم یہ تھا عبادت میں لگے رہو۔اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرکے برداشت اور صبر کا دامن مت چھوڑو ۔ تو اس کے بعد مدینہ طیبہ کی زندگی کا آغاز ہوا پھر آپ نے وہاں ایسا نظام قائم فرمایا کہ کائنات نے ایسا نظام نہ اس سے پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ ہی تا قیامت دیکھ سکے گی اور وجہ صرف یہ تھی کہ ہر شخص اپنی اصلاح کی فکر میں مگن تھا اور ان کا پہلا کام یہ تھا کہ اپنی اصلاح کی فکر کرو اپنی اصلاح کے بعد جب انسان آگے دوسروں کی اصلاح کی طرف قدم بڑھائے گا تو انشاء اللہ اس میں کامیابی وکامرانی اس کے قدم چومے گی ۔پھر وہی ہوا کہ صحابہ کرام جس جگہ پر بھی پہنچے فتح ہی فتح،غلبہ ہی غلبہ اور تمام عالم کفر ان سے مرعوب تھا
اپنے آپ کا محاسبہ : محترم حضرات ! میری تمام گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ آج ہماری اصلاح کی تمام کوششیں اور قربانیاں ناکامی کا شکار ہیں اور معاشرے پر انکا کوئی نمایاں اثر نظر نہیں آتا اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اپنی اصلاح کے بجائے دوسرے لوگوں کیلئے مصلح بن گئے ہیںحالانکہ پشتو میں ضرب المثل ہے کہ '' چھلنی نے کوزے کو کہا کہ تم میں دو سوراخ ہیں '' یہی ہماری حالت ہے کہ خود عیوب سے بھرے پڑے ہیں اور دوسروں کی اصلاح کر رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح طریقے سے اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔