کہ میں اس علاقے سے دور چلتا ہوں، اللہ تعالیٰ تمہیں خیر وعافیت نصیب فرما کر آپ تمام قوم پر رحم وکرم کا معاملہ فرما ئے ۔
قابل تقلید عمل : محترم حضرات دیکھئے! حضرت ذوالنون مصری جیسا بزرگاور اللہ کاکامل بندہ یہ خیال کر رہاہے کہ اس علاقے میں مجھ سے بڑا گناہ گار کوئی نہیں۔ اس لئے اگر میں اس علاقے سے نکل جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ اس بستی پر رحم فرما کر ان کی پریشانی دور فرمادیں گے۔ اب بتایئے کہ کیا وہ جھوٹ بول رہے تھے؟ حضرت ذوالنون مصری جیسے ولی اللہ کی زبان سے جھوٹ نہیں نکل سکتا بلکہ وہ حقیقتاً اپنے آپ کو یہ سمجھتے تھے کہ سب سے زیادہ گناہگار اور عیب دار میں خود ہوں۔ اور وہ اس لئے یہ سوچ رکھتے تھے کہ ہر وقت ان کی نظراپنی ذات پر تھی کہ میرے اندر کیا عیوب اور نقائص ہیں؟ اور ان کومیں کیسے ختم کروںگا۔
اپنے اعمال کا جائزہ: بہر حال جب تک دوسروں کو دیکھتے رہے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ فلاں کے اندر یہ عیب ہے اور فلاں کے اندر یہ برائی ہے لیکن جب اپنے عیوب پر نظر کی تو معلوم ہوا کہ کوئی بھی اتنا بڑامجرم نہیں جتنا بڑا مجرم میں خود ہو ں، اس لئے کہ جب اپنے اعمال کا جائزہ لینے کی توفیق ہوئی تو سارے عیوب اور نقصانات سامنے آگئیں، یاد رکھئے! کوئی انسان دوسرے انسانکے عیوب اور برائی سے اتنا واقف نہیں ہوسکتا جتنا انسان اپنی برائی سے واقف ہوتا ہے۔
معاشرے کی اصلاح : محترم سامعین !معاشرے کی اصلاح تو اس وقت ہوگی جب ہر وقت ہم سوچیں کہ میں جھوٹ بولنے کا عادی ہوں تو کس طرح میں جھوٹ سے چھٹکارا حاصل کر سکوں گا؟ میں غیبت کرنے کا بیمار ہوں تو اس غیبت کو کیسے چھوڑوں گا، میں دھوکہ باز ہوں اس جرم سے کیسے نجات حاصل ہو گی ، اگر سود ی کاروبار کرتا ہوں یا سود کا پیسہ کھاتا ہوں تواس عظیم لعنت سے اپنے آپ کو کیسے بچاؤں۔ اگر میں بے پردگی اور عریانی و فحاشی میں مبتلا ہوں تو میں کیسے اس سیلاب سے خو د کو محفوظ کرونگا ، اور ان تمام عیوب کی اصلاح اپنی ذات سے شروع کرنا پڑے گی ، جب تک ہمارے اندر یہ فکر پیدا نہیں ہوگی، یا د رکھیں ! اس وقت تک میں اصلاح کی یہ فکر دوسرے کے اندر منتقل نہیں کرسکتا، اسی لئے قرآن کریم نے فرمادیا کہ:
عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ (المائدة:١٠٥)
''اپنی جانوں کی فکر کرو ، اگر دوسرے لوگ گمراہ ہورہے ہیں تو ان کی گمراہی تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ بشرطیکہ تم راہ راست پر ہو۔''
سنت نبویۖ کی پیروی : میرے محترم سامعین ! جب یہ فکر ہر ایک شخص کے ذہن میں پیدا ہوگی تو یہ معاشرہ خود بخود صحیح سمت روانہ ہو جائے گا اور موجودہ تمام مسائل خود بخود حل ہونگے ،اور اس کی زندہ وتابندہ