Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

57 - 63
ضرورت نہیں۔ سبحان اللہ کیا خوب استدلال کیا ہے ۔ بادشاہ لوگ ہیں ‘ جو دل میں آئے لکھ دیتے ہیں اس مجتہد سے پوچھنا چاہیے کہ گوشت اورخون نہیں پہنچتے تو کیا مریض کی دوائی اور طالب علم کی فیس وہاں پہنچ جائے گی؟ یا یہاں پر پہنچانے کے لئے تقوی ہی درکار ہوگا۔
۳۔	جہاں تک بڑے پیمانے پر گوشت ضائع ہونے کا سوال ہے تو ان حضرات کو اپنے ملک میں یہ بات ثابت کرنا بھی دشوار ہے کیونکہ ہمارے ملک میں بوٹی تو کجا ہڈیوں کو بھی ضائع نہیں ہونے دیتے ہیں۔ مختلف فلاحی ادارے یا عوام خود غریب علاقوں میں قربانی کا گوشت پہنچانے کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ گوشت پہنچانا ایک اضافی فضیلت ہے ‘ لیکن قربانی کی قبولیت اس پر موقوف نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ قربانی کے خون کا قطرہ زمین پر نہیں گرتا مگر اس سے پہلے قربانی اللہ تعالیٰ کے دربار میں قبولیت حاصل کرلیتی ہے۔
	اس مدعا کو ثابت کرنے کے لئے ایک اشکال یہ اٹھایا جاتا ہے کہ حرم میں ہرسال حاجی لاکھوں جانور ذبح کرتے ہیں اور گوشت کا اکثر حصہ ضائع ہوجاتا ہے حالانکہ ان حضرات کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ حج کے موقع پر جن جانوروں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ اس کا تعلق اس سنت قربانی سے نہیں جس کو آپ ختم کرنے کے لئے قوم کو تجاویز اورمشورے دے رہے ہیں بلکہ وہ تو ہرحج کرنے والی حاجی کے ذمے واجب ہے ‘ اس کے بغیر حج ادھورا ہے۔
	حرم میں گوشت ضائع ہونے کا جو اشکال ہے ‘ یہ بھی بے معنیٰ ہے کیونکہ سعودی حکومت نے قربانی سے استفادے کا پراجیکٹ شروع کیا ہے۔اس پر تقریباً ۵۰ کروڑ ریال خرچ ہوئے تھے‘ اس کام کے لئے انہوں نے آٹومیٹک مشین نصب کی ہیں ۔گوشت صاف ہونے کے بعد کولڈ سٹوروں میں محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس پراجیکٹ میں اسلامی ڈویلپمنٹ بینک بھی باقاعدہ شامل ہے۔ جوسعودی ذمہ داروں سے اس کام میں تعاون کرتا ہے ۔ اس کام کیلئے سعودی عرب نے المعصم کی قربانی گاہ مخصوص کررکھی ہے جو جدیدترین مشینوں سے آراستہ کیاگیاہے۔ اس گوشت کی زیادہ مقدار پاکستان میں افغان مہاجرین سوڈان اور جبوتی کے مہاجرین کو بذریعہ ایئرلائن پہنچائی جاتی ہے۔ حرمین کے قرب و جوار میں بسنے والے غریب لوگوں کے علاوہ تیس سے زائد ممالک میں یہی گوشت بری‘ بحری‘ اور ہوائی ذرائع نقل و حمل کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ ان ممالک میں سوڈان‘ جبوتی‘ بنگلہ دیش‘ موریطانیہ مالی‘ 
Flag Counter