Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

37 - 63
 محترمہ نغمہ پروین*
عورتوں کے حقوق سیرت نبویؐ کی روشنی میں
تاریخ گواہ ہے کہ ایک عرصہ دراز سے عورت مظلوم چلی آرہی تھی۔ یونان میں، مصر میں، عراق میں، ہند میں، چین میں، غرض ہرقوم میں ہر خطہ میں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ ٹوٹے ہوں۔ لوگ اسے اپنے عیش وعشرت کی غرض سے خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بُرا سلوک کیاجاتاتھا۔ حتی کہ اہل عرب عورت کے وجود کو موجب عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا ۔ واہیانہ مذاہب عورت کو گناہ کا سرچشمہ اور معصیت کا دروازہ اور پاپ کا ایک مجسم سمجھتے تھے۔ اس سے تعلق رکھناروحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ دنیا کے زیادہ تر تہذیبوں میں اس کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔ اسے حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا تھا۔ اس کے معاشی وسیاسی حقوق نہیں تھے وہ آزادانہ طریقے سے کوئی لین دین نہیں کرسکتی تھی۔ وہ باپ کی پھر شوہر کی اور اس کے بعد اولاد نرینہ کی تابع اور محکوم تھی۔ اس کی کوئی اپنی مرضی نہیں تھی اور نہ ہی اسے کسی پر کوئی اقتدار حاصل تھا یہاں تک کہ اسے فریاد کرنے کا بھی حق حاصل نہیں تھا۔
یہ بات مسلم ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ بعض مرتبہ عورت کے ہاتھ میں زمام اقتدار بھی رہا ہے اور اس کے اشارے پر حکومت وسلطنت گردش کرتی رہی ہے یوں تو خاندان اور طبقے پر اس کا غلبہ تھا لیکن بعض مسائل پر مرد پر بھی ایک عورت کو بالادستی حاصل رہی اب بھی ایسے قبائل موجود ہیں جہاں عورتوں کا بول بالا ہے لیکن ایک عورت کی حیثیت سے ان کے حالات میں زیادہ فرق نہیں آیا ان کے حقوق پر دست درازی جاری ہی رہی اور وہ مظلوم کی مظلوم ہی رہی۔ ۱؎
لیکن اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے عورت پر احسان عظیم کیا اور اس کو ذلت وپستی کے 
______________________
 *  ریسرچ اسکالر شعبہ دینیات (سنی) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

Flag Counter