Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

31 - 63
 						   ڈاکٹر ریحان اختر قاسمی * 

 اسلام میں تصور جہاد اور امن
	اسلام نوعِ انسانی کی خیر وفلاح، امن وعدل اور صلح وآشتی کو بڑی تاکید کے سا تھ اقوام وملل اور ملک ومعاشرہ میں قائم ودائم رکھنے کا حکم دیتاہے ،نیزفتنہ وفساد اور ظلم وجور کے سد باب کی تلقین کرتا ہے۔ دیگر مذاہب عالم میں اس قدر واضح ، درخشاں اور تاکیدی تعلیمات اگر معدوم نہیں تو تشنہ اور مفقود ضرور ہیں۔ 
	اسلام دین فطرت ہے وہ معاشرہ انسانی میں امن وامان ، صلح وآشتی اور فطری حقوق کے حصول کی جدوجہد کو کامیابی کا ضامن قراردیتا ہے اور فساد فی الارض اور قتل وغارتگری کودنیا و آخرت میں ناکامی و نامرادی کا ذریعہ قرار دیتاہے۔ اسلام کا نظام ’جنگ وجہاد‘ بھی بنی نوع انسان کے لئے فلاح وبہبود کا ضامن قرارپاتاہے ۔ یہ نظام ظلم و عدوان کی ساری پگڈنڈیوں کو بنظر استحقار دیکھتے ہوئے ملک و معاشرہ میں امن و عدل کی بحالی کے لیے راہیں ہموار کرتا ہے ۔ 
	یہ واقعہ ہے کہ معاندین اسلام نے صدیوں سے آج تک انسانیت کی فلاح پر مبنی اس نظام کو اپنے طعن و تشنیع کا موضوع بنایا ہے اور ببانگ دہل تمام آلات ترسیل کے ذریعہ یہ عام کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات خوں ریزی کی تعلیم دیتی ہیں اور دنیا میں اسلام کی اشاعت انہی انسانیت کش تعلیمات کا نتیجہ ہے ، حالانکہ حقائق وشواہد اس کے برعکس ہیں۔ یہ مضمون سلسلہ وار چار قسطوں پر مشتمل ہوگا جس میں تفصیل سے جائزہ  لیاجائے گا کہ کیا حقیقت میں اسلام تیر و تفنگ اور طاقت و تلوار کی بدولت پھیلاہے ۔کیا اہل ایمان کانعرۂ ، نعرۂ توحید تھا یا نعرۂ تلوار ۔ کیا مسلمان شہنشائیت اور دنیاوی اقتدار کے بھوکے اور قتل و غارتگری کے رسیا تھے یا بوریہ نشینی ان کا شعار تھا اور خدا کی زمین پر حق و صداقت اور امن و آشتی کے متوالے تھے۔ 
    عام معنی ومفہوم کے لحاظ سے قتال یاجنگ کو اسلام میں مسعود ومبارک عمل قرار نہیں دیاجاتا۔ 
_______________________
    *شعبہ دینیات (سنی) ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
Flag Counter