کینیا‘ سینگال ‘ صومالیہ‘ کمبیا‘ شام ‘ موزمبیق ‘ نائیجیریا‘ تنزانیہ ‘ کشمیر‘ لبنان اور افغانستان شامل ہیں۔
۴۔ قربانی ادا کرنا سنت عمل ہے۔ فرض اورواجب نہیں ‘حقیقت میں اس فقہی اختلاف کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے دلوں سے قربانی کی اہمیت کو کم کیا جائے۔چونکہ واجب ہونے کی صورت میں مسلمان زیادہ اہتمام کرتے ہیں اس لئے مسلمانوں کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ قربانی صرف سنت عمل ہے لہٰذا اس قدر اہتمام نہیں کرنا چاہیے۔
فقہی پیچیدگیوں میں الجھا کر اس مسئلہ کی اہمیت کو کم کرنے کی بجائے اس حقیقت پرغور کرنا چاہیے کہ سنت سمجھنے والے اسی جذبہ وشوق سے قربانی ادا کرتے ہیں جس سے واجب سمجھنے والے ادا کرتے ہیں۔بلکہ سنت سمجھنے والوں کے نزدیک چوتھے دن بھی قربانی جائز ہے۔ مثلاً اگر کوئی تین دن کسی وجہ سے محروم رہا تو چوتھے دن اس کی تلافی کرلے۔ ایک سچے مسلمان کیلئے یہی کافی ہے کہ قربانی اس کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے ۔
عیدالاضحی کے دن قربانی کے بجائے صدقے کے جواز پر ایک صاحب قلم نے لکھا کہ فقہ کی مستند کتاب ہدایہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقر عید کے دن قربانی کی بجائے اس کی قیمت صدقہ کرنا جائز ہے۔ اس سلسلے میں ہدایہ کی عبارت کا ترجمہ ملاحظہ ہو۔
ایام نحر میں قربانی ذبح کرنا قیمت کا صدقہ کرنے سے افضل ہے کیونکہ قربانی زقسم واجب ہے یا سنت اور صدقہ کرنا نفل محض ہے ۔ سو قربانی قیمت سے افضل ہے ۔(برہان الدین المرغینانی‘ ہدایہ)
اس عبارت کو دلیل بناکر صاحب تحریر نے مذکورہ دعوی کیا ہے۔ حالانکہ صاحب نہایہ نے لکھا ہے کہ ہدایہ کے اس عبارت سے یہ مفہوم نہیں ہوتا کہ قیمت ترک کرنا جائز ہے ۔ بلکہ اگر کوئی غنی صاحب نصاب ایک بکری کی قیمت صدقہ کرے اور قربانی نہ کرے توواجب قربانی سے سبکدوش نہ ہوگا۔
۵۔ آخری بات جو اس سلسلے میں کی جاتی ہے کہ قربانی کا عمل خود نمائی کا ذریعہ بن گیا ہے‘کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو خود نمائی کرتے ہیں لیکن معترضین حضرات قربانی کے علاوہ کوئی اور عبادت بتلائیں جو سو فیصد للّٰہیت اور اخلاص سے سرشار ہوں کیا خود نمائی کی وجہ سے کسی نیک کام کو چھوڑا جائے گا جوکوئی کسی بھی عمل میں خود نمائی کرتا ہے یہ اس کی ذاتی کمزوری ہے اس پر قدغن ہونی چاہیے لیکن خودنمائی کی وجہ سے قربانی کا عمل روکنا صحیح نہیں ۔