Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

43 - 63
’’عورتوں کا ان کا حق مہر خوشی سے ادا کرو اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمھیں معاف کردیں تو اس کو خوشی اور مزے سے کھاؤ۔ ‘‘
(۳) وراثت: بعض مذہبوں کے پیش نظر وراثت میں عورت کا کوئی حق نہیں ہوتا، لیکن ان مذہبوں اور معاشروں کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔ اس کے لیے قرآن میں للذکر مثل حظ الانثیین ارشاد ہوا ہے یعنی مرد کو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔ (النسائ: ۱۱) یعنی عورت کاحصہ مرد سے آدھا ہے، اسی طرح وہ باپ سے ، شوہر سے، اولاد سے، اور دوسرے قریبی رشتہ داروں سے باقاعدہ وراثت کی حق دار ہے۔
(۴) مال وجائیداد کا حق: اس طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے وہ پوری طرح سے اس کی مالک ہے۔ کیوںکہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ وہ سب سے حاصل کرتی ہے اس لیے یہ سب اس کے پاس محفوظ ہے۔ اگر مرد چاہے تو اس کا وراثت میں دوگنا حصہ ہے، مگر اسے ہر حال میں عورت پر خرچ کرنا ہوتا ہے لہذا اس طرح سے عورت کی مالی حالت (اسلامی معاشرہ میں) اتنی مستحکم ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھی مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
(۵) پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے اس پر کسی کا اختیار نہیں چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح سے اسلام کے عطا کردہ معاشی حقوق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے کم ہے جب کہ عورت ان معاشی حقوق سے کلیتاً محروم ہے۔
تمدنی حقوق
 شوہر کاانتخاب : شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت پر بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ہے۔ ارشاد نبوی ہے:
لاینکح الایم حتی تستامر ولاتنکح البکر حتی تستاذن  ۱۲؎
شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک کہ اس کا مشورہ نہ حاصل کیا جائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔۱۳ ؎
Flag Counter