Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

41 - 63
ضروری ہے۔
جیسا کہ گزشتہ دور میں جس طرح علم مردوں میں پھیلا اسی طرح عورتوں میں بھی عام ہوا۔ صحابہ کے درمیان قرآن وحدیث میں علم رکھنے والی خواتین کافی مقدار میں ملتی ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل استنباط اور فتویٰ دینا بڑا ہی مشکل اور نازک کام ہے لیکن پھر بھی اس میدان میں عورتیں پیچھے نہیں تھیں بلکہ صحابہ کرام کے مدمقابل تھیں، جن میں کچھ کا ذکر کیا جاتاہے۔ مثلاً:
حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت ام عطیہؓ، حضرت صفیہؓ، حضرت ام حبیبہؓ، اسماء بنت ابوبکرؓ، ام شریکؓ، فاطمہ بنت قیس،ؓ، خولد بنت تویت،ؓ وغیرہ نمایاں تھیں۔ ۷؎
معاشرتی میدان:
جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی تو اس کے برعکس اسلامی معاشرہ بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالم دنیا کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمدؐ) اس نے اس مظلوم طبقہ کو یہ مژدہ جانفزا سنایا:
حبب الی من الدنیا النساء والطیب وجعلت قرۃ عینی فی الصلوٰۃ   ۸ ؎
’’مجھے دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو پسند ہے اور میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔ ‘‘
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بیزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے جو اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے صحیح ومناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح لازم قرار دیا گیا ہے اس سلسلے میں آپؐ کا ارشاد ہے:
النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی  ۹ ؎
نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی اس کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔  ۱۰ ؎
چنانچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ ہے اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ:

Flag Counter