Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

34 - 63
	 ’’جہاد مصدر ہے، یہ مشتق ہے جہد سے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ۔‘‘
مفردات القرآن کے مؤلف ان الفاظ کی تحقیق میں لکھتے ہیں:
	استفراغ الوسع فی مدافعۃ العدو  
	’’ جہاد دشمن سے دفع میں بھر پور کوشش کرنے سے عبارت ہے‘‘
تفسیر نیشا پوری میںمرقوم ہے :
والمجاہد ۃ من الجہد بالفتح الذی ہوالمشقۃ أومن الجہد بالضم الطاقۃ لأنہ بیذل الجہد فی قتال العدو ۔ 
’’المجاہد ہ جہد سے ہے فتح کے ساتھ اور یہ مشقت کے معنی میں ہے یا ضمہ کے ساتھ طاقت کے معنی میں، اس لیے کہ یہ دشمنوں سے قتال میں بھر پور کوشش اور طاقت صرف کرنے کا نام ہے۔‘‘
امام کسائیؒ اپنی مشہور ومعروف کتاب بدائع الصنائع میں تحریر کرتے ہیں :
وأماالجہاد فی اللغۃ فعبارۃ عن بذل الجہد بالضم وہوالوسع والطاقۃ أوعن المبالغۃ فی العمل من الجہد۔
’’بہرحال جہاں تک جہاد کی لغوی تعریف کا مسئلہ ہے ۔ تو وہ یہ ہے کہ لغت میں یا تو جہاد ’’ ’’بذل الجہد‘‘ (تمام وسعت وطاقت لگادینا) سے عبارت ہے۔ یاتو (المبالغہ فی العمل) کسی کام کوانتہائی بلیغ انداز سے سر انجام دینے سے عبارت ہے۔‘‘
جہاد کی شرعی تعریف:
علامہ بدرالدین عینیؒ جہاد کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
	الجہاد فی الشرع بذل الجھد فی قتال الکفار لاعلاء کلمۃ اللہ۔
’’عرف شرعی میں جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے کافرانہ طاقتوں کی پوری طاقت وقوت سے سرکوبی کرنے سے عبارت ہے۔‘‘
صاحب فتح القدیرؒ رقمطراز ہیں:
قتل مسلم کافراًغیرذی عھدبعد دعوتہٖ للاسلام وابائہٖ وعلاء کلمۃ اللہ ۔ 

Flag Counter