Deobandi Books

ماہنامہ الحق ستمبر 2014ء

امعہ دا

33 - 63
’’بیشک میری نماز اور میری قربانی اور میرا مرنا اور میرا جینا سب کچھ اللہ رب العالمین کیلئے ہے۔‘‘
رسالتمآب ا کی یہ حدیث بھی بندہ مومن کی صحیح تصویر کشی کرتی ہے۔ آپ ا کا فرمان ہے:
	لایؤمن اَحدکم حتی یکون ہواہ تبعاً لما جئتُ بہ۔
’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ اس کی خواہشات اس (شریعت) کے تابع نہ ہوجائے جو میں لے کر آیا ہوں۔‘‘
	مندرجہ بالا تعلیمات قرآن وحدیث کی روشنی میں یہ حقیقت تشت ازبام ہوجاتی ہے کہ اسلام کا علمبردار اللہ کے دئیے گئے ضابطہ زندگی کاتابع ہوتاہے اور ہمہ آن اور ہمہ وقت اللہ رب العزت کی مرضی ہی اس کے فکروعمل اورسعی وجہد کا محور و مستقر بنتی ہے۔ اس لیے اگر جنگ وقتال کا اقدام بھی اس کی طرف سے ہوتا ہے تو صرف اور صرف دین وشریعت کے حدود میں اور اللہ کی خوشنودی کا پروانہ حاصل کرنے کے لیے۔
	اللہ کی راہ میں جو جنگ ہوتی ہے وہ مقدس جنگ ہوتی ہے اور اسے عرف عام میں جہاد سے موسوم کیا جاتاہے۔ اگرچہ جہاد اپنے وسیع مفہوم میں ان تمام انتھک کوششوں سے عبارت ہے جو اللہ کی مرضی کا پابند ہوکر اللہ کے دین کی سرفرازی کے لیے کی جائیں۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ کلمہ طیبہ کا دل کی گہرائیوں سے اظہار واعلان فکری جہاد کا پہلا مرحلہ ہے اور نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج جیسی عظیم الشان عملی عبادتیں جنھیں ستون دین کا بھی درجہ حاصل ہے، اس عظیم ترین فکری جہاد کے تقاضے ہیں۔ ان کے علاوہ ہر وہ محنت شاقہ جووقت، مال اور جان کا سرمایہ لگا کر کی جائے ،جہاد میں شامل ہے۔
	بلاشبہ جان جیسی متاع عزیز کا سرمایہ اگر اللہ کے دین کی سربلندی میں لگایا جارہا ہو تو یہ جہاد بالسیف ہے جسے جہاد فی سبیل اللہ کی آخری منزل سے موسوم کیا جاتاہے۔
	اس باب میں اسلام کے تصور جنگ کو جہاد فی سبیل اللہ سے سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جہاد کا لغوی مفہوم، جہاد کی شرعی تعریف، اہمیت ، قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی فرضیت اور آداب جہاد، جیسے ذیلی مباحث زیر بحث باب کے حصہ ثانی کے مشتملات ومباحث ہیں جن کی روشنی میں اسلام کا تصور جنگ منظر عام پر آجاتاہے۔
جہادلغوی اعتبار سے:
	الجہاد، وھی مصدر، ھوالمشتق من الجھد بالضم، بالفتح۔   

Flag Counter