Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

4 - 64
	یہ عمر بھر دارالعلوم حقانیہ کے ساتھ وابستگی اور ماہنامہ ’’الحق‘‘ کی شبانہ روز خدمات کا صلہ اور اپنے سارے خاندان سے دور رہ کر کراچی جیسے بڑے شہر کو ترک کرکے اکوڑہ خٹک جیسے چھوٹے گائوں کو ترجیح دینے کا نقد بدلہ اللہ تعالیٰ نے چکا دیا۔
	شفیق بھائی جان میرے اُن کرم فرمائوں میں سے تھے جن کے خلوص و محبت کے طفیل ماہنامہ ’’الحق‘‘ کی ادارت کی ذمہ داریاں مجھے نبھانا آسان ہوگئیں تھیں۔ میری محراب ِ زندگی میں باقی آپ اُن دوچار چراغوں میں سے ایک رہ گئے تھے جن کی لَو سے اپنے ٹوٹے پھوٹے ظلمت کدے وجود میں زندہ رہنے اور کام کرنے کا حوصلہ ملتا تھا۔ اسی طرح حضرت والد مولانا سمیع الحق صاحب مدظلہ کی طویل سیاسی ، علمی ،دینی،ہنگامہ خیز زندگی میں آپ نے قدم قدم پر اِنکا ایسا ساتھ نبھایا کہ محمود و ایاز کا قصہء پارینہ دوبارہ تازہ ہوگیا۔ دوستی ، وفاداری ،اطاعت شعاری کا مثالی کردار تادمِ واپسیں ادا کرتے رہے۔ 
اپنے آبائو اجداد کی طرف شفیق مرحوم بھی صاحبانِ علم و ادب کے گرویدہ بلکہ اس قافلہ کے راہ رَو تھے۔ انتہائی بلند اخلاق سے آراستہ ،وضع دار،ملنسار،شائستہ ،مہذب،باذوق، خوش فکر،خوش مزاج ،انجمن آراء اورعلم دوست انسان تھے۔آپ وسیع المطالعہ تھے،اس حوالے سے آپ قدیم و جدید معلومات کا ایک دفتر تھے۔ اسی طرح ’’ہر فنِ مولا‘‘ جسے کہا جاتا ہے وہ تمام صفات ہم نے آپ ہی میں پائیں۔ دارالعلوم اور ہمارے خاندان کے تمام افراد کو فنی مشاورت و سہولیات آپ وقتاً فوقتاً فراہم کیا کرتے تھے۔ شعر و ادب کا انتہائی اعلیٰ ذوق بھی اللہ نے عطا فرمایا تھا۔ابھی وفات ہونے سے کچھ دن پہلے میں انہیں ویل چیئر پر بٹھا کر باہر سڑک کے قریب لایا، آپ سروس روڈ پہ کھڑے ہوکر کاروبارِ زندگی اور لوگوں کی باگ دوڑ،گاڑیوں کی برق رفتاری اور زندگی کے میلوں کو دیکھ کر گہری سوچ میں پڑ گئے۔میں نے انکا خیال بٹانے کیلئے اور اِ نکے حافظے کو ٹٹولنے کیلئے غالب کے شعر کا پہلا مصرع پڑھا 
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے …آپ فوراً گویا ہوئے … ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے۔ اسی طرح دوران ِ بیماری تقریباً ہر روز اِن کی عیادت کا موقع ملتا رہا،اکثر ضعف اور بدن میں کینسر و فالج سے پیدا شدہ درد وں کی ٹھیس سے بات چیت کرنا مشکل ہوتی لیکن اگر کوئی شعر وغیرہ میں پڑھتا تواِن کی پژمردگی میں کمی واقع ہوجاتی اور شعر کا دوسرا مصرع اکثر و بیشتر دُہرا دیتے۔ زندگی کے آخری آٹھ دس سالوں میں درود شریف کی کثرت اوردیگر وظائف میں ہمہ وقت مصروف رہتے،گوکہ آخری برسوں میں فکر ِ معاش اور اقتصادی مسائل نے معاشرے کے دیگر شرفاء کی طر ح انہیں بھی نیم جاں کردیا تھالیکن پھر بھی ہر حال میں صبر وشکر کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیا۔گوکہ حضرت والدصاحب اور مولانا عبدالحق رحمہ اللہ کے ساتھ ایک طویل پارلیمانی عرصہ میں ہروقت رہنے کے باوجود عمر بھر کسی بھی حاکم ِ وقت اور کسی بھی 
Flag Counter