Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

36 - 64
 	1996 ء میں بے نظیربھٹو کے متعین کردہ اوران کی اپنی ہی پارٹی کے سینئر ترین راہنما سردار فاروق احمد خان لغاری نے ان کی حکومت ختم کردی جس کے بعد نواز شریف دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے۔لیکن ابھی نواز شریف کی حکومت قائم ہوئے بمشکل دوسال ہی گزرے تھے کہ بے نظیر بھٹو نے‘ نوابزادہ نصراللہ خان کے گیارہ جماعتوں پر مشتمل سیاسی اتحاد؛ عوامی نیشنل پارٹی؛ ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف کو ملا کر 1998 ء میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس قائم کیا اور واشنگٹن کی سرپرستی اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کی جانب سے اس یقین دہانی پر تحریک شروع کر دی کہ ’’وہ نواز شریف کو اقتدار سے الگ کر کے نوے دنوں کے اندر انتخابات کرائیں گے اور اقتدارانتخابات جیتنے والی پارٹی کے حوالے کر دیں گے۔‘‘ یہی وہ وقت تھا جہاں بے نظیر بھٹو جیسی زیرک سیاستدان ایک جرنیل کے دھوکے میں آگئیںجو آئندہ دس سال تک خودمسند اقتدار پر براجمان رہا۔
	2009 ء میں وکلاء کی بحالی عدلیہ کی تحریک اگرچہ اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی لیکن اس کی کامیابی کے کوئی آثار نہیں تھے۔اس وقت نواز شریف نے بڑی آسانی سے وکلاء کی تحریک کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لی اور لاہور سے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ شروع کیا۔ابھی انہوں نے بمشکل راوی کا پل ہی عبور کیا تھا کہ انہیںاس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جانب سے پیغام ملا کہ ان کے مطالبات مان لئے گئے ہیں لہذا لانگ مارچ کو ختم کر دیا جائے‘ جس پر نواز شریف نے شکریہ ادا کیا۔اس طرح انہوں نے عدلیہ کی بحالی کی تحریک کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال کیا جو 2013 ء کے انتخابات میں ان کی کامیابی کی اہم وجہ بنی۔
	اب 14 اگست 2014 ء نزدیک ہے جب پاکستانی قوم کو طاہر القادری کے معجزاتی انقلاب اور عمران خان کی جانب سے لانگ مارچ کے نتائج کا انتظار ہے۔دونوں ہی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کو ان کی کرسی سے ہٹا کر عنان اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔عمران خان اس بات کی یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ پاکستان کو مثالی ریاست بنا دیں گے۔درحقیقت یہ انقلاب لانے والوں کی خواہشات پر مبنی کھوکھلے دعوے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ لانگ مارچ کے مقاصدمیں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ان کا ’’ہوم ورک‘‘ مکمل نہیں ہے۔ان کا انجام بھی بے نظیر بھٹو کے 1992 ء والے لانگ مارچ کی طرح ناکامی ہی ہو گا‘ جہاں انہیں لاڑکانہ میں نظربند ہونا پڑا اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کو لہو
Flag Counter