Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

27 - 64
پن کی صورت میں ظاہر ہوا۔ پھر ان مسائل کا جو حل تلاش کیا گیااس میں انسانی قدروں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا۔ اس انحراف کے نتیجے میں انسانی معاشرہ جن سماجی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا ہے، ان سے مکمل صرفِ نظر کر لیا گیا۔ خلاصہ یہ کہ مصنوعی تلقیح اور اسپرم بینک کے تصورات خالص مغربی کلچر کی پیداوار ہیں۔ یہ جدید سائنسی طریقے بہ ظاہر بعض مسائل کو حل کرنے کے لیے ایجاد کیے گئے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے بہت سے نئے مسائل پیدا کر دیے ہیں، جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا۔
نظامِ خاندان پر کاری ضرب
	اسپرم بینک کے رواج نے خاندان کے استحکام کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ نسلِ انسانی کے تسلسل کے لیے فطرت نے زوجین کو ایک دوسرے کا محتاج اور ضرورت مند بنایا تھا۔ شوہر کا یہ احساس کہ بیوی کی کوکھ میں اس کا بچہ پل رہا ہے، اسے بیوی کی مسلسل خبرگیری اور نگہ داشت رکھنے، اس کی تمام ضرورتیں پوری کرنے اور اس کی سرپرستی کرنے پر مجبور کرتا تھا۔ اور بیوی کا یہ احساس کہ قدرت کا یہ انمول تحفہ اسے شوہر کے ذریعہ ملا ہے، اس کے دل میں شوہر کی قدرو منزلت اور محبت پیدا کرتا تھا۔ اسپرم بینک کے ذریعے اجنبی مرد کے نطفے سے مصنوعی بار آوری کے عمل نے دونوں کو ان احساسات سے عاری کردیا ہے اور ان کا باہم جذباتی تعلق ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ دونوں بسا اوقات مالی اور مادی منفعتوں کے حصول کے لیے ایک ساتھ رہتے ہیں، ورنہ ان کے درمیان محبت و مودت اور انسیت کا تعلق نہیں رہتا۔ 
	مغرب میں ہم جنسیت (Homosexuality) کے فروغ اور آزادیٔ نسواں کے نتیجے میں صورت حال میں مزید بگاڑ آگیا ہے۔ عورت کے عورت کی جانب جنسی میلان کو فطری قرار دے کر ان کے درمیان باہم شادی کو قانونی جواز فراہم کردیا گیا ہے۔ ایسی عورتوں کی بھی خاصی تعداد ہوگئی ہے جو روایتی نکاح کو مردوں کی بالادستی قرار دے کر اس سے انکاری ہیں۔ چنانچہ وہ تنہا ہی زندگی گزارنے کو ترجیح دیتی ہیں۔پھر ان کی ممتا جاگتی ہے تو وہ اسپرم بینکوں سے رجوع کرکے اور وہاں سے اپنی پسند کے اسپرم حاصل کرکے مصنوعی تلقیح کروالیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی ملکوں میں خاندانی نظام چرمرا کر رہ گیا ہے۔ 

Flag Counter