Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2014ء

امعہ دا

25 - 64
سے ان مصالح کے لئے رقم وصول کرنا مناسب دستور ہے۔ چونکہ مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ دونوں مصالح یعنی مسئلہ تہذیب نفس اور اصلاح معاشرہ آپس میں لازم و ملزوم رہیں اس لئے شریعت نے زکوٰۃ کو فرض کرکے ان دونوں میں ہم آہنگی قائم رکھی ہے۔
زکوٰۃ اور ٹیکس میں فرق:
محترم سامعین ! زکوٰۃ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کا سبب اور مال کے بڑھنے کا سبب ہے اور زکوٰۃ عبادت ہے نا کہ ٹیکس یا جبری جرمانہ حضرت مولانا عبدالکلام آزاد ؒفرماتے ہیں: کہ زکوٰۃ کی نوعیت عام خیرات کی سی نہیں ہے بلکہ یہ اپنے پورے معنوں میں ایک انکم ٹیکس ہے جو اسلامی حکومت نے ہر کمانے والے فرد پر لگایا ہے بشرطیکہ اسکی کمائی اسکی ضروریات زندگی سے زیادہ ہو موجودہ زمانے میں انکم ٹیکس میں اور اس (زکوٰۃ) میں صرف دو باتوں کا فرق ہے ایک یہ کہ زکوٰۃاپنی نوعیت میں زیادہ وسیع مفہوم رکھتی ہے یعنی صرف کاروبار کی گھٹتی بڑھتی آمدنی پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ اندو ختے پر بھی واجب ہو جاتی ہے اگر چہ اس سال کوئی نئی آمدنی نہ ہوئی ہو ،نیز اس سال کی تمام ملکیتں بھی اس میں داخل ہیں جو بڑھنے کی استعداد رکھتی ہیں مثلاً مویشی وغیرہ اور دوسرا یہ کہ مقصد کے لحاظ سے یہ ایک خاص مصرف رکھتا ہے جسکی مختلف صورتیں متعین کر دی گئی ہیں سٹیٹ کو حق نہیں کہ ان مصارف کے علاوہ کسی دوسرے مصرف میں خرچ کرے ۔
رب ذوالجلال ہم سب کو خدائی احکامات پر عمل کی توفیق سے نوازیں ۔آمین


مؤتمر المصنفین کی نئی علمی ادبی اور تحقیقی پیشکش 

ا لا ر شا د 
الی تحقیق   
بانت سعاد

تصنیف :  مولانا فیض الرحمن حقانی
مدرس جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک 
برائے رابطہ : 0303-8359358 
Flag Counter