Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

36 - 65
قرار پایا: ’’آرٹیکل ۱۹: کوئی ریاست یامتحدہ ریاستیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہریوں کا حق رائے دہی جنس کی بنیاد پر ختم نہیں کریں گی۔‘‘
	 گویا امریکہ میں خواتین کو ۱۹۲۰ء تک رائے دہی کا حق حاصل نہ تھا جب انیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی جس کے تحت یہ حق دیا گیا۔
اسی طرح فرانس میں ۱۹۴۴ء میں عورتوں کو حق رائے دہی دیا گیا۔
	آسٹریلیا میں ملک گیر سطح پر خواتین کو رائے دہی کا حق ۱۹۲۶ء میں دیا گیا۔ جبکہ ٓاسٹریلوی پارلیمنٹ کے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی پہلی خاتون Edith Cowanتھی جو مغربی آسٹریلیاکی قانون ساز اسمبلی کی ۱۹۲۱ء میں رکن منتخب ہوئی۔
	یہی حال دیگر مغربی ممالک کا ہے جہاں پچھلی ایک ڈیڑھ صدی میں عورت کو قانونی شخص تسلیم کیا گیا اور پچاس سو سال قبل اسے حق رائے دہی دیا گیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مغرب میںتحفظ عورت کا نظریہ عرصہ دراز تک التوا میں پڑا رہا ا س کے باوجود بھی اسلام کی آزادی اور عصمت النساء پر کیچڑ اچھالتے ہیں جو آزادی عورتوں کو اب جاکر حاصل ہوئی ہے وہ اسلام نے پہلی ہجری میں ہی عطاکردی تھی نیز اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ اسلام نے آج سے ۱۴ سو سال قبل ہی ہرطبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کے حقوق نہ صرف واضح فرمادیے بلکہ ان حقوق کی ادائیگی کی تاکید بھی کی۔ انہی انسانی حقوق میں سے اسلام نے عورتوں کے حقوق کی بھی حفاظت کی اور اپنی تعلیمات میں انہیں واضح انداز میں بیان بھی کیا۔
اسلام اورآزادئی نسواں:
	اسلام نے آج سے چودہ صدیاں قبل عورت کو مساوی حقوق دیے نسلی امتیاز ختم کرتے ہوئے ، حق رائے دہی اور عورت کو انفرادی و اجتماعی حقوق دیکر۔ ماں، بہن،بیوی اور بیٹی کی حیثیت سے عائلی حقوق کا ذمہ دار بنایا اس طرح ازدواجی ، معاشی و سیاسی اور قانونی حقو ق بھی مرحمت فرمائے ۔
حضرت عثمانؓ کے انتخاب کے وقت مرد و عورت نے یکساں طور پر حق رائے دہی استعمال کیا نیز خواتین کی سیاسی مشیر کے طور پر تقرری کی گئی۔ اور مختلف انتظامی ذمہ داریوں پر اس کی تعیناتی کی گئی۔عورت کو دفاعی ذمہ داریوں میں نمائندگی دی گئی۔ ملٹری آفیسرز کے طور پر ذمہ داریاں دی گئیں۔
	عورت کی دی ہوئی امان کو مرد کی امان کے برابر قرار دیا گیا۔

Flag Counter