Deobandi Books

ماہنامہ الحق جولائی 2014ء

امعہ دا

37 - 65
	حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ا نے فرمایا:
	’’عورت پوری قوم کیلئے امان دے سکتی ہے یعنی مسلمانوں کی طرف سے امان 
	دے سکتی ہے‘‘ (جامع ترمذی)
	عورت کی امان کا صحیح ہونا رسول اللہ ا اور صحابہ کرام کے زمانہ میں ایک عام بات تھی۔ یہاں تک کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا:
’’اگر کوئی عورت (مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف بھی)کسی کو امان دے دے تو جائز ہے‘‘  (سنن ابی داؤد )
	اسی طرح اسلامی معاشرے میں عورت کو پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی گئی ایک موقع پر جب حضرت عمر فاروقؓ نے مجل شوریٰ سے عورتوں کے مہر کے مقدار متعین کرنے پر رائے لی تو مجلس شوریٰ میں موجود ایک عورت نے کہا ـآپ کو اس کا حق اور اختیار نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اسے ڈھیروں مال دے چکے ہوتب بھی اس میں سے کچھ واپس مت لو، کیا تم ناحق الزام اور صریح گناہ کے ذریعے وہ مال (واپس) لینا چاہتے ہو‘‘ (النسا،۴:۲۰)
	اس پر حضرت عمرؓ نے اپنی تجویز واپس لے لی اور فرمایا:
’’عورت نے صحیح بات کی اور مرد نے غلطی‘‘ (شوکانی، نیل الاوطار)
	یہ عورت کو اسلام کی عطا کردہ عزت اور تکریم ہی تھی جس سے وہ معاشرے کا ایک موثر اور باوقارحصہ بن گئی اور اس نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ سیاسی و انتظامی اور سفارتی کردار کے علاوہ تعلیم و فن کے میدان میں بھی عورتیں نمایاں مقام کی حامل تھیں روایت حدیث، قرآن و کتابت شعر و ادب اور دیگر علوم و فنون میں بھی بے شمار خواتین مہارت اور سند کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہ ہے سیرت نبوی کا وہ پہلو جسے اغیار نے آج تک دباکر رکھا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ حضورا کی ان تعلیمات کو اجاگر کریں جن پر معاندین اعتراضات و اتہام کی یورش کرتے ہیں۔تبھی جاکر صالح و صحت مندمعاشرے کا وجودممکن ہے
٭  ٭  ٭

Flag Counter