Deobandi Books

ماہنامہ الحق دسمبر 2013ء

امعہ دا

57 - 65
 کے ساتھ خاص تھی ، جو آپ ﷺ کے بعد تا قیامت کبھی بھی حاصل ہونے والی نہیں تھی ، اگر عورتوں کا مسجدوں میں نماز ادا کرنا لازمی درجے میں ہوتا ، تو آپ ﷺ کی وفات بعد صحابہ کرام اپنی عورتوں و بیویوں کو مسجدوں میں جانے سے منع نہیں کرتے اور نہ حضرت عائشہ ؓ  صحابہ کے اس عمل کی تائید میں فرماتیں کہ اگر اللہ کے رسولﷺ فسادز مانہ کی حالت دیکھتے تو عورتوں کا مسجدوں میں جانا بالکل بند ہو گیا تھا ، اور اس پر ایک طرح سے صحابہ کا اجما ع ہو چکا ہے نزول حجاب سے قبل جنگوں میں عورتوں کی شرکت کو حجاب کے رد میں پیش کرنا بھی کم فہمی کی علامت ہو گی ، چونکہ نزول حجاب سن ۵ھ میں ہوا، اس سے قبل غزوات میں شریک ہونے والی عورتوں کے عمل سے احکام حجاب رد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
جنگ جمل میں حضرت عائشہ ؓ صدیقہ کی قیادت فوج کو بھی حجاب کے خلاف پیش کیا جانا ، تاریخ و سیر سے نا واقفی کا اظہار ہے ، حضرت صدیقہ کا جنگ جمل میں شریک ہونا ایک تاریخی حقیقت ہے اور اس میں آپ کی قیادت کرنا بھی مسلم ہے ، لیکن اس سے یہ کہاں لازم آتا ہے کہ انہوں نے بلا پردہ قیادت کی تھیں ، وہ تو اونٹ کے ’’ہودج ‘‘ میں ہوتی تھیں اور ہودج میں بھی اس طرح پردے میں ہوتیں کہ نزدیک سے بھی بہ غور دیکھنے سے ان کی شخصیت دیکھائی نہیں دیتی تھی۔
مذکورہ بالا بیانات ، دلائل و شواہد سے اچھی طرح واضح ہو گیا کہ عورتوں کا گھروں سے بلا ضرورت شدید ہ بلا حجاب نکلنا حرام ہے ، اگر مسلمان عورتیں اس کے خلاف کرتی ہیں ، تو اللہ کے حکم کی نا فرمانی ، اس کی لعنت کی شکار اور بہت سے فتنے و فساد پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں اور شاید اسی وجہ سے جس قدر کسی قوم و امت کی تباہی و بربادی چاہتی ہے ، تو از خود اس قوم کی عورتیں اور لڑکیاں سڑکوں ، گلیوں چوک و چورا ہے کی زینت بننے لگتی ہیں ، پھر اس نقطے سے قوم و امت کے زوال و انحطاط کا آغاز ہوتا ہے ، ’’انقلاب امم ‘‘ایسی بہت سی قوموں وملکوں کے زوال و فنا کی تاریخ پیش کرتی ہے ، جن کی بنیادی سبب ان کی عورتوں کی غیر محدود آزادی ، بلا کسی خوف و خیال کے مردوں سے اتصال و اختلاط تھا ’’المرأۃالمعاصرۃ‘‘کامصنف رقمطراز ہے ’’ولذاتری الحضارۃ الیونانیۃ وامت زمنا طویلا واذ دھرت ما دامت المرأۃ محافظۃ علی ستر ھا وحجابھا ، ثم انحطت وتدھورت تلک الحضارہ العریقہ بسبب اباحہ الحریۃ المطلقہ المرأۃ‘‘۔
یونانی تہذیب و تمدن کی ترقی کی طویل ترین عمر اس کی عورتوں کا اپنے پردے وحجاب کی پابندی سے جڑی ہوئی تھی ،لیکن جب وہاں کی صنف نسواں بے حجابی و مطلق آزادی اور بے قید مرد و زن اختلاط کے وبا کی شکار بنیں ، تو پھر اس قدیم ترین اقبال مند تہذیب و تمدن کو ادبار و انحطاط کے وبا کی شکار بنیں ، تو پھر اس قدیم ترین اقبال مند تہذیب و تمدن کو ادبار و انحطاط کی ایسی آنکھ لگی کہ آج تک نہ وہ اپنے سنہرے ماضی کی باز یافت میں کامیاب ہو سکی اور نہ موجودہ عالمی سطح پر جاری تہذیبی و تمدنی مسابقت کی فہرستوں میں اپنے نام درج کراسکی ہے ، روم جسکی قلم رو
Flag Counter