علامہ کے والد ماجد اپنے ریش سفید کا واسطے دے کر بیٹے کو کہتے ہیں کہ مجھے میرے آقا و مولا کے حضور یوں رسوا نہ کرو۔ تم چمن محمد ا کی ایک کلی ہو وہی اخلاق اپنائو جو حضور ا کو پسند ہیں۔ فقیر وحید الدین لکھتے ہیں کہ شیخ نور محمد علیہ الرحمۃ کے حسن تربیت کا یہ اعجاز تھا کہ جب علامہ اقبال قرآن کی آیت اور حدیث رسول سنتے تھے تو فوراً ’’گردن بہ طاعت نہادن‘‘ کی تصویر بن جاتے تھے۔ (روزگار فقیر جلد دوم۔ ص۱۵۲)
کوہِ اُحد پر لرزہ طاری ہو گیا:
سید نذیر نیازی کی روایت ہے کہ ’’ایک مرتبہ ایک صاحب نے علامہ اقبال کے سامنے بڑے اچنبھے کے ساتھ اس حدیث کا ذکر کیا کہ رسول ا اصحاب ثلاثہ کے ساتھ اُحد تشریف رکھتے تھے۔ اتنے میں اُحد لرزنے لگا اور حضورا نے فرمایا ’’ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس پر پہاڑ ساکن ہو گیا‘‘۔ علامہ اقبال نے حدیث سنتے ہی کہا۔ ’’ اس میں اچنبھے کی کون سی بات ہے؟ میں اس کو استعارہ و مجاز نہیں، بالکل ایک مادی حقیقت سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک اس کیلئے کسی تاویل کی حاجت نہیں۔ اگر تم حقائق سے آگاہ ہوتے تو تمہیں معلوم ہوتا کہ ایک نبی کے نیچے مادے کے بڑے سے بڑے تو دے بھی لرز اٹھتے ہیں۔ مجازی طور پر نہی، واقعی لرز اٹھتے ہیں‘‘۔ (اقبال کامل ص۶۴ اور جو ہر اقبال ص۳۸)
نور بصیرت کا راز:
ایک دفعہ کسی نے پوچھا کہ رسول مقبول ا کا دیدار کیسے ہو سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا ’’پہلے حضور ا کے اسوہ حسنہ پر عمل کرو اور اپنی زندگی کو اسی میں ڈھالو اور پھر اپنے آپ کو دیکھو۔ یہی ان کا دیدار ہے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ کو اتنی بصیرت کیسے حاصل ہوئی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا کہ اکثر اوقات رسول کریم ا پر درود بھیجتا رہتا ہوں۔ اب تک ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے۔
آپ کے صاحبزادہ ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں کہ میں نے اماں جان کی موت پر بھی انہیں روتے نہیں دیکھا مگر قرآن سنتے وقت یا رسول اکرم ا کا نام زبان پر آتے ہی ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے۔ 1933ء میں ایک نوجوان نے حکیم الامت سے اس بارے میں استفسار کیا کہ حضرت عمرؓ فرماتے تھے آنحضرت ا جب چلتے تھے تو درخت تعظیم سے جھک جاتے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیونکہ یہ بات ماورائے فطرت معلوم ہوتی ہے۔ علامہ اقبال نے جواب دیا کہ تمہارا ذہن مختلف راستے پر منتقل ہو گیا ہے۔ تم الجھ کر رہ گئے ہو۔ قدرت کے مظاہرے اور درختوں کے جھکنے میں بھائی یہ واقعہ حضرت عمرؓ کا عشق بتاتا ہے۔ کہ ان کی آنکھ یہ دیکھتی ہے ’’ اگر تمہیں عمرؓ کی آنکھ نصیب ہو تو تم بھی دیکھو گے کہ دنیا ان کے سامنے جھک رہی ہے‘‘۔
(ماہنامہ فکر و نظر مارچ 1979ء رسالت مآب اور اقبال ۔۔۔۔۔۔ رحیم بخش شاہیں)