Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

59 - 65
 فرمایا: ’’میرے سامنے میری امت کے اچھے اور برے سب عمل پیش کیے گئے تو میں نے اس کے جو اچھے عمل دیکھے ان میں راستے سے دور کی جانے والی ایذا رساں چیز تھی، اور اس کے برے کاموں میں تھوکا ہوا بلغم تھا جو مسجد میں پڑا رہتا ہے، اسے دفن نہیں کیا جاتا‘‘۔ (مسلم )
تفریح اور اسلام:
	اسی طرح اسلام انسان کو مناسب تفریح اور حسب ضرورت آرام کرنے کی ترغیب دیتا ہے کیوں کہ یہ دوبارہ کام کرنے اور صحت کی حفاظت میں معاون ہوتے ہیں۔ حضرت حنظلہ بن ربیع ؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’اے حنظلہ! گھڑی گھڑی کی بات ہوتی ہے‘‘۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’جس چیز کا اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تعلق نہیں ہے، وہ سراسر فضول، تماشا اور بھول ہے صرف چار باتوں کے سوا ........ اور آپ ؐ نے مرد کا اپنی بیوی سے دل لگی کرنے کا ذکر کیا‘‘۔ (طبران فی معجم الکبیر )
صحت کی حفاظت :
	اسلام کی نظر میں صحت اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو اس نے اپنی بندوں کو عطا کی ہے، بلکہ یہ ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے، اس لیے ایک طرف تو اس نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے تو دوسری طرف اس کا تحفظ بھی کرنا چاہیے؛ کیوں کہ صحت اللہ تعالیٰ کے سامنے ایک بڑی ذمہ داری بھی ہے۔ رسول اللہ ؐ   فرماتے ہیں: ’’قیامت کے روز، محاسبہ کے وقت، سب سے پہلے بندہ سے یہ کہا جائیگا کہ کیا میں تجھے جسمانی صحت نہیں دی تھی؟ اور تجھے ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا‘‘؟ (ترمذی ) دوسری جگہ ارشاد ہے: ’’قیامت کے روز چار باتوں کا پوچھے بغیر کسی انسان کے قدم نہیں ہلیں گے۔ اسکی عمر کے بارے میںکہ اس سے اس نے کس کام میں کھپایا؟ اور اس کے علم کے بارے میں کہ اس پر اس نے کیا عمل کیا؟ اسکے مال کے بارے میں کہ اس نے اس سے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اور اس کے جسم کے بارے میں کہ اس سے اس نے کس کام میں صرف کیا‘‘؟ (ترمذی ابن حبان)
	اس لیے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اس نعمت کی حفاظت کرے اور اس کا غلط استعمال کرکے اسے تبدیل کرنے یا بگاڑنے سے پرہیز کرے۔ اس نعمت کی حفاظت کی صورت یہ ہے کہ اس کی پوری نگاہ داشت کی جائے اور اس کے بقا اور بہتری کے لیے ہر ضروری کوشش کی جائے۔ مسلمان کو ہر وہ عمل ضرور انجام دینا چاہیے جو ماہر اطبا کے فیصلے کے مطابق صحت کے بچائو اور فروغ کے لیے مفید ہو۔
	ویسے تو صحت مند معاشرہ قائم کرنے کیلئے ہر شعبہ کے افراد کو اپنی ذمہ داریاں انجام دینی چاہیے مگر بعض افراد کی ذمہ داری سب سے بڑھ کر ہوتی ہے کہ وہ عوام میں شعور پیدا کریں اور انہیں حفظانِ صحت کے اصولوں سے آگاہ کریں جیسے ڈاکٹر، حکیم ،علماے کرام، خطبااور ائمۂ مساجد وغیرہم۔

Flag Counter