Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

51 - 65
’’ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو۔ اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہو گا؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیروئوں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا۔ ہندوستان میں بھی آگرھ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور انکی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا‘‘	        (دینی مدارس ابن الحسن عباسی)
مختصراً یہ کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں جو دین کے ہر شعبے میں دین متین کی خدمات میں مصروف ہیں اور چونکہ ان کا سرا  جا کر سینہ نبوت سے جا ملتا ہے۔ اسلئے کہ انکی تمام ذمہ داریوں اور فرائض تعلیم و تعلم تدریس و تصنیف، دعوت و تبلیغ کیلئے بے پناہ صلاحیت و استعداد، اساتذہ فن کی صحبت و تربیت ، طلب علم کی راہ میں جانکاہی جگر سوزی، تقویٰ و تدین ربط و استناد کی ضرورت ہے جسکے بغیر یہ فریضہ وراثت ادا نہیں ہو سکتا۔ مگر ان تمام ذمہ داریوںمیں پل صراط پر چلنے جیسی نازک ذمہ داری قضاء و افتاء کی ہے جس کی شرائط و صفات اتنی ہی نازک، حساس اور عمیق ہیں، صرف ذکاوت و ذہانت اور وسعت مطالعہ نہیں بلکہ علماء راسخین کا رسوخ، تبحر علمی، کتاب و سنت کے وسیع متنوع قدیم و جدید ذخیروں پر عبور تغیرات و تبدلات زمانہ سے آگاہی اور ہر لمحہ پیدا ہونے والے تہذیبی، معاشرتی اور سماجی و عرفی حالات اور عہد جدید کے پیدا کردہ مسائل اور چیلنجوں سے واقفیت، پھر سائل اور مستفتی کے سوال اور ماخذ شریعت کے نصوص تک پہنچنے کی صلاحیت لازمی ہے جسے فقہ کی ایک تعریف میں ’’فھم غرض المتکلم‘‘ سے تعبیر کیا گیا اور حدیث میں جسے’’خیر‘‘ کا ایک عظیم سرمایہ قرار دیا گیا ہے۔ من یر داللہ بہ خیراً یفقھہ فی الدین (الحدیث)
	بحمد للہ عز وجل دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اپنے بے سروسامان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود روز اول سے ان صفات سے متصف اور فضل و کمال کے حامل مدرسین، مفتیان عظام عطا فرمائے، جنکے نبوغ ورسوخ، تقویٰ و تدین پر پورا اعتماد کیا جا سکتا ہے اور دارالعلوم حقانیہ کے وقیع علمی مقام قبولیت خداوندی کی بناء پر اسکے دارالافتاء کو بھی ملک و بیرون ملک علمی، تحقیقی اور عدالتی حلقوں میں سند اعتماد اور عوام میں مقبولیت حاصل ہے۔ دارالعلوم حقانیہ کے شعبہ تخصص فی الفقہ و الافتاء کے کارکردگی اور اہمیت پیش کرنے سے قبل مختصراً فتویٰ کا تاریخی پس منظر ذکر کیا جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ کے دور میں فتویٰ:
	رسالت کے زمانہ میں نبی اکرم ﷺ خود مفتی  الثقلین تھے اور منصب افتاء پر فائز تھے وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتویٰ دیا کرتے تھے اور آپ کے فتاویٰ جو امع الکلم تھے اور آپ ؐ کے یہ فتاویٰ(یعنی
Flag Counter