Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

49 - 65
عورتیں وہاں قیدیوں کی طرح ہیں‘ وہاں مارکیٹ نہیں جاسکتیں
	کراچی سے پشاور اور گوادر سے گلگت تک کیا پاکستان یہ ہے کہ جس کی تصویر ملالہ نے اس پروگرام میں پیش کی؟ اس نے کہا ایسے لگتا تھا جیسے ہم جیل میں ہیں۔میں نے بلوچستان کے دوردراز گائوں سے لے کر لاہور‘ کراچی ‘پشاور اور چھوٹے چھوٹے قصبوں تک عورتوں کو ہرموڑ اورہرمقام پر دیکھا ہے۔ کھیتوں اور کھلیانوں میں‘ دفتروں اور فیکٹریوں میں‘ بازاروں اور ہوٹلوں میں ‘ کیا یہ ہے ملالہ کا قیدخانہ ؟  کیا یہ کالک ہے جو وہ اس قوم کے منہ پر مل کر نوبل انعام کی سیڑھی پر چڑھنا چاہتی ہے؟اس قوم کا ہردانشور‘ مفکر اوراینکرپرسن عوام کو خوشخبری سناتا ہے ‘ اسے پاکستان کا وقار بلند ہونے کی نوید قرار دیتا ہے۔ 
	ملالہ نوبل امن انعام حاصل کرنے والوں کی صف میں ہی ٹھیک تھی‘ جس میں اسرائیل کے تین قاتل وزرائے اعظم بیگن اسحاق رابین اور شمعون پیرس بھی کھڑے ہیں۔ نوبل انعام لیتے ہوئے ان کے ہاتھ ہزاروں معصوم فلسطینیوں کے خون سے رنگ ہوئے تھے۔ اس فہرست میں ڈرون حملوں سے معصوموں کی جانیں لینے والا بارک اوباما اور مسلم امہ کا سب سے بڑا دشمن ہنری کسنجر بھی کھڑا ہے۔	
	یہ غیرت کے سودے ہوتے ہیں جو غیرت مند قوموں کے غیرت مند افراد کیا کرتے ہیں کہ ایسے امن انعامات پر لعنت بھیج دیتے ہیں__	 ویت نام کا لیڈر لودیوتھوامریکہ سے امن مذاکرات کررہا تھا جب اسے ہنری کسنجر کے ساتھ امن کا انعام دیا گیا تواس نے انکار کردیا۔ ژاں پال سارتر کوادب کا نوبل انعام دیا گیا تواس نے بھی یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ مجھے اپنے نام کے ساتھ نوبل انعام یافتہ لکھ کر اپنے ساتھ گھٹیامذاق نہیں کرنا۔۔پاکستان کی ایک مسلمان بیٹی کو مغرب کے قاتل حکمران ہمارے منہ پر کالک ملنے کیلئے استعمال کرتے رہے ‘ اس کے سر پر ایسے ہاتھ امن کا تاج پہنانا چاہتے تھے جن پر عبیر قاسم جیسی کئی مسلمان بچیوں کا خون لگا ہوا ہے ۔یہ بچیاں جنہیں ان ظالموں کے خوف سے گھروں میں قید ہونا پڑا‘ ان کا سکول چھوٹ گیا‘ وہ گھروں میں قید ہوگئیں لیکن پھر بھی وہ ان کی ہوس سے اپنی عفت بچا سکیں نہ زندگی۔             

Flag Counter