Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

45 - 65
کرکے خودفریبی میں نہیں رہناچاہیے،بلکہ اپنے بچوں کواہتمام وخصوصیت سے اسلامی سال کے مہینوں کے نام یادکرانے چاہئیں ،تاکہ وہ تقلیداغیارکے غیرمحسوس حصارسے نکل سکیں۔
قمری تقویم کی بنیاد زمین کے گرد چاند کی ماہانہ گردش پر ہے اور ہر مہینے کا آغاز نئے چاندسے ہوتاہے ۔ماہرین کے مشاہدات اورمحتاط اندازوں کے مطابق رئویت ہلال (ننگی آنکھوں سے چاند نظرآنے)اور ولادت قمری کا درمیانی وقفہ کم ازکم 20گھنٹے کاہوناچاہئے۔قمری تقویم میں تاریخ کا آغاز غروب شمس سے ہوتاہے اورقمری مہینہ کبھی 29دن کا اور کبھی30دن کاہوتاہے۔ یوں قمری سال عموما354دن اور بعض سالوں میں 355دن کا ہوتاہے۔ اس کے برخلاف موجودہ رائج عیسوی تقویم میں آج کل دن کاآغاز رات بارہ بجے سے ہوتاہے اوراس میں یہ بھی طے ہے کہ ہرسال کون سامہینہ کتنے دنوں کاہوگا،اوریہ شعر،جودراصل ایک انگریزی شعر کاترجمہ ہے ،بچے بچے کویادہے:
تیس دن ستمبر کے، اپریل، جون، نومبرکے       باقی سارے اکتیس کے، سوائے فروری کے
 جب کہ فروری کا مہینہ عام سالوں میں 28دن کا لیاجاتاہے اور لیپ(چارپرتقسیم ہونے ولا ہر چوتھاسال)کے سالوں میں 29دن کا ہوتاہے۔ مہینوں کی یہ تعداد خود ساختہ ہے کسی قاعدہ یا ضابطہ کے تحت نہیں البتہ سب مہینوں کے دنوں میں مجموعی تعداد365اور لیپ کے سالوں میں 366دن ہوگی۔اس کے مقابل قمری تقویم میں ابہام ہے،جس میں کئی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔
 قمری تقویم کے ابہام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام ؑ اور بزرگان دین کی ولادت و وفات کے ایام مبہم رہتے ہیں انسان طبعاً سہولت پسنداور عجلت پسندواقع ہواہے زیادہ محنت کے بغیر مکمل ثمرات حاصل کرناچاہتاہے اس لئے حضرات انبیاء کرام ؑ کی خودساختہ تواریخ متعین کرلی جاتی ہیں مثلا عیسائی حضرات نے ’’25‘‘دسمبر کو حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ولادت قرار دے رکھاہے اور اس تاریخ کوولادت مسیح کی خوشی میں کرسمس مناتے ہیں حالانکہ خود غیر متعصب عیسائیوں کو اعتراف ہے کہ ’’25‘‘دسمبرحضرت عیسیٰؑ کا یوم ولادت ہر گز نہیں خودساختہ تہوارمنالینے سے انسان یہ سمجھنے لگتاہے کہ اس نے اپنے رہنما و پیشواسے محبت کاحق اداکردیاہے یوں اس کی روز مرہ کی عملی زندگی کی اپنے پیغمبر کی اصل تعلیمات سے موافقت و مطابقت بسا اوقات بتدریج کم ہوتے ہوتے بالآخرنیست و نابود ہوجاتی ہے۔ قمری تقویم کے ابہام سے حضرات انبیاؑ کی ولادت باسعادت اور وفات کے علاوہ ان کی زندگیوں کے بعض دیگر اہم واقعات کی سوفیصد ’’توقیت‘‘مشکل ہوجاتی ہے۔ اگر کہیں ایسا ہو بھی جائے تو بھی دنیا بھر کے تمام مقامات پر قمری تواریخ کا یکساں ہونا ضروری نہیں لہٰذا ابہام پھربھی ایک حد تک باقی رہے گا۔قمری شمسی تقاویم میں تواریخ اور مہینے تو قمری ہوتے ہیں لیکن ان مہینوں کوموسموں کے مطابق رکھنے کیلئے تقریباہر تیسرے سال ان میں ایک ماہ کااضافہ کیاجاتاہے اور سال کے بارہ کی بجائے تیرہ مہینے بنائے جاتے ہیں چونکہ قمری سال شمسی سال سے تقریباگیارہ دن چھوٹاہوتاہے لہٰذا تین سالوں میں تقریباایک ماہ کا فرق پڑجاتاہے۔ قمری تقویم کے ابہام کا ایک فائدہ  یہ بھی ہے کہ 
Flag Counter