Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

19 - 65
اہم پیغام دنیا والوں کوامن ‘ صلح اور آشتی کا ہے‘ ہرایسا عمل جس میں بلاشرعی عذر کے روئے زمین پر فساد اور امت کوفرقوں میں تقسیم کرکے آپس میں لڑانا ہو‘ انتہائی سختی سے ایسے حرکات سے زمین کے باسیوں کو منع کردیا گیا ہے۔
ذرائعِ فساد ِمعاشرہ:	معزز سامعین! مذکورہ آیت کریمہ میں بھی مالک الملک معاشرے میں عمومی طورپر جوکام جھگڑے اور فساد کا ذریعہ بنتے ہیں ان کا بیان فرمارہے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو مومنین پر حرام قرار دی گئی ہیں۔
(۱)  کسی بھی شخص کا مذاق اڑانا (۲)  طعنے دینا  (۳)  کسی شخص کو برے نام سے پکارنا۔
یہ تینوں امور ایسے ہیں جو اکثر جھگڑے اور فساد کا باعث بنتے ہیں اس لئے حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اگریہ تینوں کام کسی نے کئے اور پھر توبہ بھی نہ کی تو ان کا حشر قیامت کے دن ظالموں کے ساتھ ہوگا۔
اور فتنہ وظلم کا ارتکاب کرنے والوں کے بارہ میں رب العزت نے یہ سخت وعید بیان فرمائی :  اِِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَہُمْ عَذَابُ جَہَنَّمَ وَلَہُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ (سورہ بروج:۱۰)
 ’’جنہوں نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کو تکلیف پہونچائی پھر توبہ نہیں کی توان کے لئے جہنم کا عذاب ہے اور ان کے لئے جلنے کا عذاب ہے‘‘
حکیم الامت کی رائے:	حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی نور اللہ مرقدہ نے فلھم عذاب جہنم کے بعد ولھم عذاب الحریق لانے کی وجہ یہ تحریر فرمائی کہ عذاب میں ہرطرح کی تکلیف موجود ہے ‘ سانپ‘ بچّھو‘طوق‘ زنجیریں‘ حمیم ‘ غساق ‘ زقوم وغیرہ ان میں سب سے شدید ترین عذاب جلنے کا عذاب ہے جسے تخصیص بعدالتعمیم کے طورپر مختص کرکے الگ بھی ذکر فرمایا۔
تحقیر مسلم گناہ کبیرہ:  بہرحال آیت میں پہلا کام کسی مسلمان کا مذاق اڑانا۔ قرآن مجید نے بڑے تاکید کے ساتھ مرد اور عورت کو الگ الگ بیان فرما کر حکم دیا کہ نہ تو کوئی مردو دوسرے مرد کا مذاق اڑائے اور نہ ہی کوئی عورت کسی دوسری عورت کا مذاق اڑائے۔ شریعت میںمذاق سے منع کرنے سے مراد ایسا مذاق ہے کہ جس میں کسی کا ایسا تمسخر کرنا جس سے دوسرے کواپنی تحقیر معلوم ہو یا اس کا ذلیل کرنا محسوس ہو۔ یہ بہت ہی بڑا گناہ ہے ۔
فوقیت بلحاظ تقویٰ: یہ بات یاد رکھیں اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک ہی باپ حضرت آدم علیہ السلام سے پیدا فرمایا تمام انسان صرف ایک ہی رب العالمین کے بندے ہیں ایک ہی نبی یعنی ختم المرسلین ﷺ کے امتی ہیں۔ کسی کو بھی دوسرے مسلمان پر رنگ و نسل ‘ قومیت ‘ مالداری وغیر مالداری ‘ حسب ونسب وغیرہ کی وجہ سے فوقیت نہیں اگر اللہ کے دربار میں کسی انسان کی سربلندی ہے تو اس کی بنیاد تقویٰ پر ہے جیسے کہ ارشاد ربانی ہے:  ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (سورۃ الحجرات ۱۳)  اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاوہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔
Flag Counter