Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

14 - 65
 ۱۲۳۹ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی دنیا سے چل بسے بقول مومن خان مومن 
’’دست بیداد اجل سے بے سروپا ہوگئے   فقرو دین ‘ لطف وکرم فضل و ہنر ‘ علم و عمل 
اسی کے اگلے سال ۱۲۴۰ء کودہلی کا نقشبندی مجددی مظہری درویش حضرت شاہ غلام علی ؒبھی رخصت ہوگئے ،آپ کا تاریخ وصال نوراللہ مضجعۃ(۱۲۴۰ئ)  (آثار الصنادید‘ ذی قعدہ ۱۳۷۱ھ مجلۃ الفرقان )
_____________ O _____________
ائمہ فلسفہ والہٰیات کی بعض اہم کتابیں:
لافلاطون کتاب فی غایۃ الجودۃ واللطافۃ فیما یتعلق باالشریعۃ والنبوۃ ویسمی بالنوامیس ولارسطوا  ایضاً کتاب فی ذلک ولکل منھما کتاب فی السیاسات الملکیۃ وقدصنف المعلم الاولی کتابًا حسناً فی تہذیب الاخلاق وصنف ابو علی المسکویۃ کتاباً فیہ سماۃ بکتاب الطہارۃ لحصہ ونقلہ المحقق الطوسی الی اللغۃ الفارسی المسمی باخلاق ناصریۃ (صدرا ص۱۱ الحکمۃ العلمیہ والکتب المصنفۃ علی اصنافھا)
محن ذریعہ منن :
کتمت ربما کتمت المنن فی المحن قول الصوفی الشھیرابن عطاء اسکندری 
			(قصص القرأن ازمولانا حفظ الرحمن ج ۱ص۲۶۲ )
_____________ O _____________
ابطال مادہ ومادیت:
مادہ جس کی تعریف ارسطو کے نزدیک یہ تھی کہ وہ نہ ایک ہے نہ چند نہ کثیر ہے نہ ثقیل ہے نہ خفیف ہے نہ حار ہے نہ بارد یعنی اس میں کوئی ایجابی (ثبوتی) صفت نہیں پائی جاتی گویا وہ ’’کچھ نہیں‘‘ (لاشئی) کے مترادف ہے یا جیسا کہ دیمقراطیس کہتا ہے کہ وہ سالمات کہتا ہے کہ وہ سالمات اور چھوٹے ذرات کا مجموعہ ہے یا جیسا کہ اب حال میں کہا جاتا ہے کہ وہ برق پاروں میں سے مرکب ہے اور سمندروں میں تیرتا پھرتا ہے یہ ایسے خواب کی تعبیر ہے جسے ہم میں سے کسی نے نہیں دیکھا کیونکہ ہم بجر احساسات کے کچھ جان ہی نہیں سکتے اور جو چیز عقل سے ثابت کی جائیگی وہ لفظ کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا پس وہ لفظ جس کے بل بوتے پر سطحیوں نے یہ غل مچا رکھا تھا کہ اجرام سماوی سے لے کر سمندورں کی تہہ تک جو کچھ ہے سب ازلی اور عدیم الفناء مادہ اورانرجی (قوت) کی نیرنگیوں کا تماشا ہے ارض ‘ سماوی ‘ عضوی ‘ غیرعضوی‘ ساری کائنات کا ایک ایک ذرہ اورتمام حوادث بلا استثناء مادہ ہی کے ناقابل تقسیم ذرات (جزء لا یتجزی)کے باہمی تعامل سے پیدا ہوئے ہیں آپ نے دیکھا کہ جس اینٹ پر یہ ساری عمارت کھڑی 
Flag Counter