Deobandi Books

ماہنامہ الحق اکتوبر 2013ء

امعہ دا

11 - 65
سید احمد شہید ؒ کے کچھ احوال: 
رائے بریلی سے واپس ہوکر دہلی برائے ملاقات شاہ عبدالعزیز گئے۔ فرمایا: کہاں سے آئے؟ کہا کہ رائے بریلی سے۔کس خاندان سے ہیں؟ توکہاکہ وہاں کے سادات سے ہوں ‘تعارف کے بعد دوبارہ مصافحہ ومعانقہ کیا۔ فرمایا کہ کس غرض سے اتنی طویل سفر کی تکلیف برداشت کی؟ سید صاحب نے کہا کہ آپ کی ذات مبارک کو غنیمت سمجھ کر طلب الہٰی کے لئے یہاں پہنچا‘شاہ صاحب نے فرمایا  اللہ کا فضل اگر شامل حال ہے تو اپنے ددھیال ننھیال کی میراث تم کو مل جائے گی۔اس وقت آپ نے ایک ملازم کو اشارہ کرکے کہا کہ سید صاحب کو بھائی مولوی عبدالقادر کے ہاں اکبر الہ آبادی مسجدپہنچا دو اور آپ کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دے کر کہنا کہ معزز مہمان کی قدر کریں۔ 
حوّل(۱) اللہ قلوب الناس عموماً وافئدۃ العلماء والصلحاء خصوصاً تہوی الیہ اتی الیہ الدعوات من 
_____________________
(۱)      یہاں مولانا کے طالبعلمانہ ذوق نے ان کا قلم طالبعلمانہ عربی کی طرف موڑ دیا‘ اس عربی کا خلاصہ اور ترجمہ یہ ہے:
آپکو چند دنوں میں اس قدر باطنی ترقی ہوئی اور وہ بلند مقامات حاصل ہوئے جو سالہاسال کی ریاضت ومجاہدوں سے کم حاصل ہوتے ہیں۔اورآپ پر بیداری وخواب میں اس قدر انعامات الہیہ کی بارش ہوتی جس کی نظیر کم ملتی ہے۔ شاہ اسماعیل شہید لکھتے ہیں کہ ایک بار خواب میں رسول اللہ ﷺ نے سید صاحب کے منہ میں تین چوہارے دئیے اور بہت شفقت ومحبت سے کھلائے۔ جب آپ بیدار ہوئے تو ان کی شیرینی آپ کے ظاہر وباطن سے ظاہر تھی۔چھ برس تک سید صاحب نے نواب امیر خان کی رفاقت اختیار کی‘ اوران کے لشکر میں شامل رہے جو کہ انگریزوں سے اس عرصہ میں برسرپیکار تھا۔ نواب صاحب نے جب ۱۲۳۲ھ انگریزوں سے مصالحت اختیار کی تو سید صاحب ان سے جدا ہوگئے اور پھر دہلی پہنچے ‘جہاں اکبرآبادی مسجد میں قیام فرمایا‘ یہاں لوگ کثیرتعداد میں آپ سے رجوع کرنے لگے۔مولانا عبدالحئی اور شاہ اسماعیل شہید یہیں آپ سے بیعت ہوئے۔ مرشد وقت شاہ عبدالعزیز ؒ کی زندگی میں ان اکابر کی کسی دوسرے کی بیعت میں داخل ہونامعمولی واقعہ نہ تھا۔اس کا بڑا چرچا ہوا جوق درجوق علماء وفضلاء وصالحین بیعت ہونے لگے۔ دن بدن آپ کی مقبولیت و شہرت بڑھتی گئی۔ یہ معلوم ہوتاتھا کہ اللہ نے دفعتاً اپنے بندوں کے قلوب عموماً ان علماء و صلحا کے خصوصاً آپ کی طرف پھیر دئیے ہیں جو لوگ آپ تک آنے کی رسائی نہ پاسکے اپنے وطن آنے کی دعوتیں دیں‘ کثرت سے دعوت نامے حضرت شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں بھیج دئیے اور عرض کیا کہ جیسا ارشاد ہو کیا جائے۔ شاہ صاحب نے اپنا لباس خاص پہنایا اور بڑی خوشی سے رخصت کیا۔ سید صاحب اس سفر میں میرٹھ‘ مرادنگر‘ سردھنہ‘ ہرھیانہ‘ پھلت‘ مظفر نگر‘ دیوبند‘ سہارنپور‘ انبیٹھ‘ نانوتہ اور کاندھلہ جیسے بڑے شہروں اور قصبوں میں جاکر دعوت حق کی ترجمانی کی۔آپ کا یہ سفر باران ِرحمت کی طرح تھا کہ جہاں گزرتا ہے سرسبزی وشادابی ‘ بہار وبرکت چھوڑ جاتا ہے۔دیکھنے والوں کا متفقہ بیان ہے کہ جہاں آپ تھوڑی دیر ٹھہریں گے وہاں مساجد میں رونق اللہ ‘ رسول کاچرچا ‘ ایمانوں میں تازگی‘ اتباع سنت‘ شوق اسلام کا جوش پیدا ہوگیا۔ اورکہیں کہیں ترک وبدعت اور رفض کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔ علی میاں کے والد مولانا عبدالحئی نے ارمغان احباب میں مولانا ذوالفقار علی جوکہ شیخ الہند کے والد تھے‘ کہ یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ یہ امرمشاہد ہے کہ سید صاحب اگر کسی ضرورت سے بھی کسی گائوں میں گئے تو آج وہاں بھی خیروبرکت پائی جاتی ہے‘ گویا ایک نورمستطیل ہے کہ جدھر جدھر وہ گئے ادھر ادھر وہ پھیل گئے۔ اس تمام سفر میں مولانا عبدالحئی اور اسماعیل ان کے ہمرکاب تھے‘ جن کے مواعظ سے بہت اصلاح و انقلاب ہوا اس ایک سفر نے وہ کام کیا جو بڑے بڑے مشائخ کا تزکیہ باطن اور بڑے بڑے علماء ومصلحین کی برسوں کی تربیت ظاہر کرتی ہے‘ ہر ہر جگہ سینکڑوں آدمی متقی‘ متورع‘ عابد ‘متبع سنت اور ربانی بن گئے ہزاروں فاسق صالح اور اولیاء اللہ ہوئے‘ بیسیوں آدمی سید صاحب کے قتل کے ارادے سے آئے اور جانثار بن کر گئے اور گھربار چھوڑ کر ان کے ساتھ ہوگئے یہاں تک کہ میدان جنگ میں شہید ہوگئے۔  (از مختصر سیرت سید احمد شہیدؒ ۔۔ عرفان الحق)

Flag Counter