ملفوظات حکیم الامت جلد 17 - یونیکوڈ |
صاحب کو بھیجا کہ بلا اطلاع کئے دروازہ تک پہنچا کر چلے آؤ ۔ کیونکہ وہ بڑے آدمی ہیں ۔ تنہا جانے میں ان کی سبکی بھی ہے ۔ اور خوف بھی ہے کہ کہیں کوئی کتا وغیرہ پریشان نہ کرے ۔ میں امراء کی خوشامد تونہیں کرتا ۔ لیکن اس کا بہت خیال رہتا ہے کہ کوئی بات ان کی شان کے خلاف نہ ہو ۔ حافظ صاحب سے میں نے کہہ دیا کہ ایک گھنٹہ کے بعد آپ میری اطلاع کرنا تاکہ میں درر پہچ چاؤں ۔ گاڑی شیخ صاحب کے انتظار میں وہیں کھڑی رہی لیکن میں اتر کیوں پیدل چلنے لگا تاکہ بہٹ سے جتنا بڑھ جاؤں اچھا ہے ۔ غرض اس کا بڑا اہتمام کیا کہ شاہ صاحب کو اطلاع نہ ہونے پائے گو وہ بہت مخلص اور بڑے رئیس ہیں ۔ انکے نزدیک ایک چھکڑا کر دینا کچھ بھی تھا ۔ لیکن مجھے خود اس کا سبب بننا ہرگز گوارنہ ہوا ۔ شرم آئی کہ ان سے ملنا تو گویا خود سواری مانگنا ہے ۔ ہاں لوٹتے وقت ملنے کا ارادہ تھا ۔ پھر اگلے روز وہ خود رائے پور آگئے ۔ اور واپسی میں انہوں نے خود اپنی ٹمٹم میں بٹھلایا اس میں میں نے ذرا عذر نہیں کیا کیونکہ خود مانگنا تو تذلل تھا ۔ اور کہنے پر نہ جانا تکبر ہے یہ دونوں برے ۔ بعد کو ایک موقعہ پر فرمایا کہ الحمداللہ مجھ سے غیرت کا مادہ بہت ہے ۔ یہاں تک کہ س پر بھی غیرت آئی کہ شاہ صاحب کو میری کا بھی حال معلوم ہو ۔ اور اس غیرت کو بھی میں نے ان سے چھپایا ۔ تاکہ ان کی دل شکنی نہ ہو ۔ بلکہ ان سے اور کچھ عذر کردیا تھا ۔ پھرفرمایا کہ غیرت ایک ایسی چیز ہے جس سے آدمی سیکڑوں گناہوں سے خود بخود محفوظ رہتا ہے ۔ غیرت قریب قریب سب گناہوں کے لئے محافظ ہے بہت سے ایسے ایسے باریک گناہ ہیں جن عقل بھی نہیں سوچ سکتی ۔ لیکن جس میں غیرت کا مادہ ہوتا ہے اس کی طبیعت میں خود بخود وہ کھٹک جاتے ہیں ۔ پھر سوچنے سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعی یہ تو کھلا ہوا گناہ تھا ۔ عقل کہاں تک سوچ سکتی ہے جب ہی تو ایمان کے شعبوں میں سے افضل اور ادنی کا ذکر کرکے حیا کا کاص طور سے حضور نے ذکر فرمایا ۔ کہ الحیاء شعبۃ من الایمان حالانکہ ضرورت نہ تھی کیونکہ اور شعبے بھی تو غیر مزکور تھے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حیا اور غیرت بڑا بھاری شعبہ ہے ایمان کا اسی لیے اس کا حاص طور سے ذکر فرمایا گیا ۔ ملفوظ ( 588) شوق رفتہ رفتہ بڑھتا ہے ۔ عسرت سنت انبیاء ہے ایک ذاکر صاحب سے عرض حال پر فرمایا کہ ادھر ادھر کے خیالات اگر بے ارادہ آتے