ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
بدرجہ اتم فرمائی ہے ۔ وذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء فالحمداللہ یار ما ایں وارد و آن نیز ہم خادم مذکور کو اس چائے کے واقعہ کے سلسلہ میں فرمایا کہ میں فرمائش کرکے بھی پچھتایا اور یہ تنبیہ بھی فرمائی کہ سب کام نوکروں ہی کے سپرد نہ کردینا چاہئے خود بھی نگرانی رکھنی چاہیے ۔ نیز جو خاص جزو اس کام کا ہو اس کو تو خود ہی کرنا چاہئے مثلا چائے کی پتی خود ڈالنی چاہئے تھی کیونکہ یہ کوئی مشکل کام نہیں اور اس کو خود نہ کرنے کے نتائج خراب ہیں چنانچہ اس کا مشاہدہ آج ہی کے واقعہ میں اچھی طرح ہوگیا ۔ حکیم صاحب کو تو اندیشہ ہوگیا تھا کہ کہیں تنفس کا دورہ نہ پڑجائے ۔ یہ بھی فرمایا کہ کوئی شخص احتیاط خود اپنے معاملہ میں چاہے کرے یا نہ کرے لیکن اپنے کسی عزیز یا متعلق کے معاملہ میں خاص طور سے ضروی ہے ۔ یہ بھی فرمایا کہ یوں تو باوجود احتیاط کے بھی غلطی ہوجاتی ہے لیکن اس پر افسوس نہیں ہوتا ۔ اگر ماہرا اور باسلیقہ جس میں فکر اور اہتمام بھی ہو اس چائے کے معاملہ مین غلطی کرتا تو باوجود اس شدید نقصان کے جو مجھے پہنچا مجھے افسوس نہ ہوتا ۔ کیونکہ ماہر سے بھی کبھی کبھی غلطی ہو ہی جاتی ہے یہ بھی فرمایا کہ نوکروں کو کبھی بے فکر نے ہونے دے ۔ ان کے ساتھ ایسا برتاؤ رکھے کہ ان کو ہمیشہ یہ خیال رہے کہ ہم پر اعتماد نہیں ہے ویسے دل سے ان کی مطلق تحقیر نہ ہو بلکہ اپنا بھائی سمجھے ۔ ( 210 ) حضرت حکیم الامت پر اللہ تعالٰی کی خصوصی عنایات کسی ذاکر کے ہاتھ سے ایک سپرد کیا ہوا کام بگڑ جانے پر بسلسہ تنبیہ فرمایا کہ لوگوں میں یہ عام مرض ہے کہ تخمینی چیز کو تحقیق سمجھ لیتے ہیں حالانکہ جب میں موجود ہوں تو جہاں شبہ ہو مجھ سے خود تحقیق کرلیں اپنے قیاس اور تخمین پر کیوں عمل کریں ۔ بس اس کی توفیق نہیں ہوتی ۔ یہ سب خرابی ہے کبر کی ۔ اپنے کو عاقل سمجھتے ہیں ۔ اور یہ مرض ایسا عام ہے یعنی اپنی رائے کو کافی سمجھنا کہ عورتوں اور مردوں سب میں ہے جس سے سخت غلطیاں واقع ہو جاتی ہیں ۔ اگر کوئی اپنی رائے کو کافی نہ سمجھے گا تو خود اجتہاد کرنے کی ہر گز جرات نہ کرے گا بلکہ جہاں شبہ ہو دوسرے سے تو پوچھ لے گا ۔ یہی راز ہے کہ حضور سرور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اجتہاد کرنا جائز نہ تھا کیونکہ حضور خود تشریف فرماتے تھے تو اجتہاد کی ضرورت ہی نہ