ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
خالہ را خایہ بودے خالو شدے ایں بتقدیر است یعنی گرو بدے اس میں بھی بدے بدے ہے ۔ ہوتا ہوتا سے کیا ہوتا ہے اپنا مقصود صاف لکھیں اور برراہ راست لکھیں ۔ یہ طریق باطن تو وہ ہے کہ اس میں کسی کا واسطہ ہے ہی نہیں ۔ پھر ان صاحب سے جو واسطہ تھے فرمایا کہ آپ ان کو یہی لکھ دیجئے کہ جو کچھ ان کو لکھنا ہو وہ خود مجھ کو لکھیں ۔ پھر فرمایا کہ اس طریق میں تو ساکین کا مردود کا ساحال ہے کہ ایک کے ساتھ جدا معاملہ ہے ۔ مثلا // ایک ہی مرتبہ میں دو مردے ہیں ۔ ایک مرحوم ہے ایک مقہور ۔ ایک پٹ رہا ہے ایک جنت کی ہوائیں لے رہا ہوں ۔ بلا واسطہ لیکھں جو کچھ لکھیں ۔ اور تو اور اس طریق میں ایک وقت وہ بھی آتا ہے کہ کا پیر بھی واسطہ نہیں رہتا ۔ جیسے مشاط دو لھن کا بناؤ سنگار کر کے دولھا کے پاس پہنچا آتی ہے پھر دو لہا دولہن کی خلوت میں وہ بھی موجود نہیں رہ سکتی ۔ ( 202 ) حضرات چشتیہ پر بدعتی ہونے کا الزام غلط ہے بہ سلسلہ گفتگو فرمایا کہ محبت ایک طبعی ہوتی ہے ایک عقلی ۔ محبت طبعی مامور بہ نہیں بلکہ محض محبت عقلی مامور بہ ہے ۔ اس میں اتفاق سے اگر طبعی بھی ہوجائے تو جائے ۔ اور اگر نہ ہو تو کچھ حرج نہیں اور یہی محبت ہے جو اس حدیث میں مراد ہے ۔ لا یو من احدکم حتی اکون احب الیھ من والدہ وولدہ والناس اجمعین ان ہی مسائل کو تو لوگوں نے گم کردیا ہے ۔ استفسار پر فرمایا عقلی محبت کا معیار یہ ہے کہ محبوب کی کبھی مخلالفت نہ کرے نہ ظاہرا نہ باطنا نہ عزم کرے مخلالفت کا نہ صدور ہو مخلافت کا ۔ بس پھر اگر ساری عمر بھی طبعی شوق وذوق نہ ہو تو ذرہ برابرا نقصان نہیں ۔ بس یہی عقلی محبت بالکل کافی ہے اور صرف نجات ہی کے لئے نہیں بلکہ ۔ درجات عالیہ کے لئے اور مقبولیت کے لئے بھی کافی ۔ پھر فرمایا کہ اسی سے تو اکثر اہل طریق کو غفلت ہوگئی لوگ طبعی محبت کے پیچھے پڑگئے کیونکہ اس کا رنگ نمایاں ہے اور عقلی محبت کا نمایاں نہیں عجہ یہ ہے کہ وہ انفعال ہے اور یہ محض فعل ہے تو انفعال تو محسوس ہوتا ہے اور فعل محسوس نہیں ہوتا ۔ اس کا پھیکا پھیکا رنگ ہوتا ہے ۔ دیکھئے ذوق ومومن کے شعروں میں ایک کیفیت ہوتی ہے ان کو سن کر دل میں شورش پیدا ہوجاتی ہے اور حکیم محمود خاں کے نسخہ میں جو اجزاء ہیں ان میں کوئ شورش اور کوئی کیفیت نہیں مگر فرق دیکھ لیجئے ۔ ان چیزوں کا اثر تو صحت ہے اور ان کا اثر صحت پر تو یقینا