ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
اللہ تعالی نے ارتسام کی خاصیت رکھی ہے کہ جو چیز انسان کے دماغ کے سامنے آتی ہے وہ چیز اس کے دماغ میں مر تسم ہو جاتی ہے ـ اور گو اس وقت بچپن میں اس بچہ کو ان مرتسمات کا احساس نہ ہو مگر جب وہ بچہ سن شعور کو پہنچتا ہے تو اس وقت ان چیزوں کا جو کہ اس کےدماغ میں پہلے سے موجود ہیں اس کو احساس ہونے لگتا ہے اور پھر وہ ان خیالات اور تصورات سے متاثر ہوتا ہے یہاں تک کہ ایک دن ایسا آتا ہے کہ کسی ادنیٰ محرک سے اس سے اسی قسم کے افعال کا ظہور بھی ہونے لگتا ہے تو جب کوئی بچہ کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوگا اور ان بزرگ کے اقوال کو وہ سنے گا اور افعال کے دیکھے گا تو گو وہ اس وقت اس کی سمجھ میں ان اقوال و افعال کی حقیقت نہ آئے مگر محض اس سننے اور دیکھنے ہی کا یہ اثر ہوگا کہ ایک نہ ایک دن اس پچہ سے بھی اس قسم کے افعال کا ظہور ہونے لگے گا ـ اور دماغ کی اس ارتسام کی خاصیت ہی کی وجہ سے بزرگوں نے لکھا ہے کہ بچہ کے سامنے کوئی حرکت ایسی نہ کرے جو بے حیائی کی ہو کیونکہ اس وقت جو چیز اس کے سامنے آئے گی وہ اس کے دماغ میں محفوظ ہو جائے گی پھر بڑے ہو کر اس سے ویسے ہی بے حیائی کی بات کا ظہور ہونے لگا گا ـ (114) شیخ کامل کی تعلیم میں خودرائی سخت مضر ہے ارشاد فرمایا کہ اس طریق سلوک میں طالب کو چاہیے کہ جس سے وہ اپنی اصلاح باطن کا تعلق قاتم کرنا چاہتا ہے اس تعلق سے قبل یہ دیکھ لے کہ اس شیخ کے اندر شرائط مشیخیت ہیں یا نہیں جب اس کی طرف سے اطمنان ہو جائے اور اس شیخ سے اپنی اصلاح نفس کا تعلق قائم کر لیا جاوے تو پھر اس کی تعلیم میں خودرائی کو ہرگز دخل نہ دے بلکہ اس پر کامل اعتماد کرے اور جو کچھ وہ تعلیم کرے بلا چون و چرا اس کا کامل اتباع کرے کامیابی اسی میں ہے ورنہ اگر اس نے اپنے شیخ پر اعتماد نہ کیا اور اس تعلیم کی قدر نہ کی تو نتیجہ اس کا سوائے محرومی اور پریشانی کے اور کچھ نہیں ـ حضرت حافظ کا ارشاد ہے ـ فکر خود رائے خود دو عالم رندی نیست کفراست دریں مذہب خود بینی و خود رائی پھر حضرت والا نے اس کی تائید میں ایک حکایت بیان فرمائی کہ کسی شیخ کا ایک مرید تھا اس