ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
خشوع بھی ہو سترہ جو کھڑا کرتے ہیں وہ بھی تحصیل خشوع ہی کے لئے ہے تاکہ طبیعت نہ بٹے اور سامنے سے گذرنے والے کو ہٹانا بھی اسی واسطے ہے کہ نماز کے کمال خشوع میں اس کے گذرنے سے خلل پیدا ہوتاہے ۔ اور ستروں کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ سامنے سے گذرنے والے کو خود ہٹانا نہ پڑے بلکہ وہ خود ہی بچ جائے سترہ کے اندر سے نہ گذرے ۔اس تمہید کے بعد اب غور کیجئے کہ صفت تابع ذات کے ہوتی ہے یا کہ ذات صفت کی تابع ہوتی ہے ظاہر ہے کہ صفت ہی تابع ہوتی ہے ۔ پس اگر صفت کی ایسی حفاظت کی جائے جس سے ذات ہی غائب ہوجائے ظاہر ہے کہ ممنوع ہوگی ۔ اب سمجھو کہ جب تم سامنے سے گذرنے والے سے لڑو گے تو کیا وہ تم سے نہیں لڑے گا اور جب ہاتھا پائی ہوئی تو نماز ہی کہاں رہی جو اس کی صفت کی حفاظت کی ضرورت ہو ۔ اس واسطے امام صاحب نے اس کی ممانعت کی ہے اور فرمایا ہے کہ حدیث شریف میں جو فلیاقل آتا ہے وہ زجر ہے تاکہ گذر نے والے کو اس حرکت کا پورا قبح معلوم ہوجائے ۔ مقصود دراصل لڑائی نہیں ہے ۔ بس اس پر خواہ مخواہ امام صاحب پر اعتراض ہے حالانکہ خود ہی حدیث کا مطلب نہیں سمجھے ۔ چوں ندیدتد حقیقت رہ افسانہ زوند (207) خود رائی کا مرض حضرت اقدس مدظلہم العالی کی طبع مبارک فطرۃ نہایت لطیف ہے جیسا کہ رات دن مشاہدہ میں آتا ہے اور اب تو حضرت اقدس گویا بس سراپا لطافت ہی لطافت ہوگئے ہیں ۔ سنترہ جیسی لطیف شے بھی تناول فرما کر فرمایا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پیٹ میں پتھر اڑگئے پھر فرمایا کہ لوگ ہدیہ بھی اپنی رغبت کے مطابق دیتے ہیں حالانکہ ایسی چیز ہدیہ دینی چاہیے جو مہدی الیہ کو مرغوب ہو اور اس کا بہت آسان طریقہ یہ ہے کہ قبل ہدیہ کے خود اس سے پوچھ لے لیکن رسموں نے حقائق کو مستور کر رکھا ہے اور ایسا کرنا جانبین سے خلاف تہزیب سمجھاجاتا ہے ۔ حالانکہ یہ موٹی بات ہے کہ اس میں دونوں کی سراسر مصلحت ہے کہ دینے والے کے تو دام خرچ ہوئے اور وہ چیز میرے کام بھی نہ آئی بالخصوص آج کل تو علاوہ غذا کے اوپر کی کوئی اور چیز موافق آتی ہی نہیں ۔ اب دیکھئے سنترہ کیسی لطیف چیز ہے مگر اس کو کھا کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پیٹ میں پتھر اڑگئے جو صاحب سنترے لائے ہیں ان کی تو خاصی رقم لگ گئی اور