ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
کہ ان امور کے ظاہر کرنے کے وقت اور موقع دے مثلا ملاقات کے وقت اپنا شغل چھوڑ دے ۔ (161) کام میں لگے رہنے کی ضرورت ایک صاحب جو حضرت والا کے خاص اعزہ میں سے ہیں ان کے یہاں ایک مرتبہ چوری ہو گئی بہت مال چوری ہوگیا ۔ جس سے سب کو بہت افسوس تھا خاص کر ان کے مستورات کو بے حد صدمہ تھا ایک صاحب نے حضرت والا سے عرض کیا کہ دل چاہتا تھا کہ اگر وہ لوگ یہاں اس وقت بھی تھانہ بھون میں ہوتے تو صبر کے متعلق حضرت والا کا ایک وعظ سن لیتے جس سے ان لوگوں کی تسلی تشفی ہوجاتی حضرت والا نے فرمایا کہ نہیں یہ بات غلط ہے ہمیشہ یاد رکھیے کہ تازہ غم میں کبھی وعظ و نصیحت نہ کرنا چاہیے ایسی حالت میں وہ نصیحت اس مصیبت زدہ کے لئے کچھ مفید نہیں ہوتی بلکہ الٹی اور مضر ہوتی ہے اور وجہ اس کے مضر ہونے کی یہ ہے کہ اس وقت نصیحت تو ہوتی ہے اس بات کہ تم اپنے جذبہ غم کو رو کو اور وہ مصیبت زدہ اس نصیحت کو سن کر کوشش بھی کرتا ہے غم کے روکنے کی مگر چونکہ اس وقت غم کے شدت ہوتی ہے اس لئے اس کے روکنے سے یہ بات تو ہوتی نہیں کہ غم فرو ہوجائے بس یہ ہوتا ہے کہ وہ غم دل کا دل ہی میں رہتا ہے ۔ اور زیادہ عرصہ تک دل میں اس غم کے رہنے سے اس مصیبت زدہ کے قلب میں ایک گھٹن پیدا ہوجاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس مصیبت زدہ کے اندر مختلف امراض پیدا ہوجاتے ہیں اور غم جوں کا توں قلب کے اندر موجود رہتا ہے تو بجائے اس کے کہ اس وقت اس کی نصیحت سے اس مصیبت زدہ کو کچھ نفع پہنچے نقصان ہوتا ہے بس شدت غم کے وقت نہ تو یہ مناسب ہے کہ اس مصیبت زدہ سے ایسی باتیں کرے کہ جس سے ان کا صدمہ اور بڑھے کہ ہائے اتنا مال چلا گیا تمہارا اتنا نقصان ہوا اور نہ ایسی باتیں کرے کہ ارے میاں کیوں فکر میں پڑے ہو اتنا صدمہ کیوں کرتے ہو بس جہاں تک ہوسکے اس کی کوشش کرے کہ اس شخص مصیبت زدہ کی طبیعت دوسری طرف مشغول رہے اس حادثہ کی طرف توجہ نہ ہی ہونے پائے چنانچہ میں نے بھی ایک خط اس وقت ان کو لکھا ہے مگر قصدا میں نے ایک لفظ بھی ان کو ایسا نہیں لکھا کہ جس سے ان لوگوں کے لئے رنج وغم کی ممانعت پائی جاتی ہو یا یہ کہ اس لفظ سے ان کے غم میں اور اضافہ ہو ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایسے وقت