Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاولیٰ 1434ھ

ہ رسالہ

8 - 16
اسلامی لباس
مولانا توحید بجنوری

﴿یٰبنِی آدَمَ قَدْ أَنَزَلْنَا عَلَیْْْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْآتِکُمْ وَرِیْشاً﴾․(اے اولادِ آدم!ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا، جو تمہارے ستر کو چھپاتا ہے اور موجب زینت بھی ہے۔)آیت شریفہ میں حضرتِ حق جَلَّ مجدُہ نے تمام اولادِ آدم کو خطاب فرمایا کہ تمہارا لباس قدرت کی ایک عظیم وبیش قیمت نعمت ہے، اس کی قدر کرو ،صرف اہل اسلام کو،یعنی دین سماوی اور قانونِ الہٰی کے ماننے والے کو خاص نہیں کیا ؛ بلکہ پوری انسانیت کو شامل فرمایا ،اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کہ لباس اور ستر پوشی انسان کی فطری خواہش اور ضرورت ہے،مزید آیت کریمہ میں اس طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ ہم نے تمہاری صلاح وفلاح کے لیے ایسا لباس اُتارا ہے جس سے تم اپنے قابلِ شرم اعضاچھپا سکو اور ستر پوشی کے علاوہ ایک مزید فائدہ لباس سے اور حاصل ہوتا ہے کہ انسان اپنی ہیئت اور حالت کو مہذب وشائستہ بنانے کے لیے لباس سے زینت وجمال حاصل کر سکتا ہے۔ نیز دوسری آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿یٰبنِیْ آدَمَ خُذُوْازِیْنَتَکُمْ عِنْدِ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾․(اے آدم کی اولاد !لے لو اپنی آرائش ہر نماز کے وقت )حضرت علامہ شبیر احمد صاحب عثمانی  تحریر فرماتے ہیں کہ:” یہ آیت اُن لوگوں کے رد میں نازل ہوئی ہے جو کعبہ کا طواف بر ہنہ ہوکر کرتے تھے اور اسے پرہیز گاری اور اللہ سے قریب ہونے کا ذریعہ سمجھتے تھے ،اللہ رب العزت نے ان کو بتلایا کہ یہ کوئی نیکی نہیں اور نہ ہی اس کا تقویٰ سے تعلق ہے ،خدا کی دی ہوئی پوشاک جس سے تمہارے بدن کا ستر اور آرائش ہے،وہ اس کی عبادت کے وقت دوسرے اوقات سے بڑھ کر قابلِ استعمال ہے؛ تاکہ بندہ اپنے پروردگار کے دربار میں اُس کی نعمتوں کا اثر لے کر حاضر ہو۔“(تفسیر عثمانی سورة الاعراف :31)

پس دنیا کی ہر مہذب اور باشعور قوم ستر پوشی ااور لباس کو لازم قرار دیتی ہے اور لباس کے بغیر ستر کھول کر رہنا پسند نہیں کرتی ،اطرافِ عالم میں شاید کوئی انسانی آبادی اور بستی ایسی ہو جو اس فطری قانون اور ضابطہٴ حیاتِ ِانسانی سے انحراف کرتی ہو؛ البتہ جنگلی اور وحشی قوموں کے بارے میں ضرور سنا ہے، جو انسانیت سے عاری ہوتی ہیں اور اُن کابودووباش اور رہن ،سہن بالکل جانوروں جیسا ہوتا ہے۔ وہ لباس کیا ؟ کسی بھی تہذیبی عمل اور قانونِ انسانیت سے واقف نہیں ہوتیں ؛لہٰذا اُن سے بحث ہی نہیں ۔ بات تو باشعور اور خردمند معاشروں کی چل رہی ہے،وہ سب اس فطری خواہش وضرورت کا پاس ولحاظ رکھتے ہیں اور ہر مہذب معاشرہ وماحول مردوں کی بہ نسبت عورتوں کی ستر پوشی پر زیادہ توجہ مرکوز کرتا ہے؛لیکن آج تہذیب وتمدن اور ترقی وشائستگی کا مفہوم بدل کر دَجَّالی قومیں اور شیطانی ذُرّیت فطرت سے بغاوت کر رہی ہیں۔

ربِ کائنات کا پسند فرمودہ لباس
اللہ رب العزت کا کوئی نبی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کسی معاشرے اور تہذیب سے متاثر نہیں ہوتا؛ بلکہ ہر ہر مسئلے اور حکم میں مامور من اللہ ہوتا ہے،اسی لیے حضرات انبیاء علیہم الصلوٰةوالتسلیم اپنے ماننے والوں اور پیر وکاروں کو فطری ضروریات اور مواقع پر بھی خدائی ہدایات اور قوانین الہٰی کی روشنی میں راستے اور طریقے بتاتے اور سکھاتے ہیں ،حدتویہ ہے کہ سونے، جاگنے،کھانے ،پینے اور بول وبراز جیسے معمولی اور چھوٹے امور میں بھی خدائی احکامات سے ہدایات جاری کرتے ہیں اور خود بھی عمل کرتے ہیں،اسی لیے آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے جاں نثاروں کو یہ باتیں تعلیم کیں تو دشمنانِ خدا نے ٹھٹا کیا تھا کہ لود یکھ لو یہ کیساخدا کا پیغمبر ہے ،ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں سکھاتاہے ؟ان عقل کے اندھوں کو یہ کہاں معلوم تھا کہ دین اور مذہب ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہوتا ہے ،انسانی زندگی اور حیات کے کسی شعبہ اورگوشہ کوتشنہ نہیں چھوڑا جاتا ؛بلکہ ہر مسئلہ کا حل بیان کر دیا جاتا ہے۔ جب نبی اور رسول تمام امور میں مامور من اللہ ہوتا ہے تو لباس اور ستر پوشی جیسے اہم مسئلہ میں کیوں نہ خدائی حکم موجود ہو گا؛ ایسا ہونا کہ لباس کے حوالے سے کوئی غیبی اشارہ اور الہام باطنی نبی کے پاس نہ ہو اور وہ اپنی قوم وملت کے معاشرہ اور ماحول سے متاثر ہو کر انھیں کا لباس اپنا لے اور اپنی امت کو بھی اسی کا حکم کرے ، ایسا ہونا عقل ونقل دونوں اعتبار سے بعید معلوم ہوتا ہے،نقلاًتو اس لیے کہ حضرت عبداللہ بن عمر وبن العاص فرماتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :”إ نَّ ھٰذِہ مِنْ ثِیَابِ الْکُفَّارِفَلاَتَلْبَسْھا․“(مسلم شریف کتاب اللباس والزینة)(یہ کافروں کا لباس ہے اس کو مت پہننا)جو انسان ماحول ومعاشرے سے متاثر ہو کر لباس استعمال کرتا ہو وہ ایسا جملہ کیسے کہہ سکتاہے؟جب عام آدمی اور انسان اپنے قول وعمل میں ایسا کھلا تضاد نہیں کر سکتا تو نبی اور رسول سے ایسا معاملہ کیوں کر ممکن ہے؟ اسی طرح ذخیرئہ احادیث میں بکثرت ایسی روایات موجود ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : یہ لباس جائز ہے، وہ ناجائز ہے ،فلاں بہتر ہے اور فلاں غیر مناسب ہے،کہیں تشبہ بالکفار کی ممانعت فرمائی تو کہیں یہود نصاریٰ اور مشرکین کی مخالفت کا حکم فرمایا ،جو نبی او ر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے احکامات اور ہدایات بیان فرمائے وہ خود کافر معاشرہ اور مشرکانہ ماحول سے کیسے متاثر ہوسکتا ہے؟

اور عقلاً اس لیے کہ جو نبی اسلام اور پیغمبر بر حق معاش اور معاد کے تمام شعبوں میں غیبی اشارات اور باطنی الہامات سے سر فراز کیا جاتا ہو ،جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حیاتِ انسانی کے ہرہر گوشہ پر انسان کی ہدایت وراہ نمائی خدائی پیغامات اور آسمانی ہدایات کی روشنی میں کرتا ہو وہ ستر پوشی اور لباس کے مسئلہ میں موجودہ معاشرہ سے کیسے مرعوب ہو سکتا ہے؟

لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ جو ستر پوشی کا طریقہ اور جو لباس خالق کائنات کو پسند تھا اور ہے ،وہی اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا اور جیسے حبیب اِلٰہ العالمین قیامت تک کے نبی ہیں ایسے ہی قیامت تک اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ لباس بھی وہی ہے جو مسنون لباس ہو ؛ چناں چہ ان لوگوں کی بات کوئی وزن اور حیثیت نہیں رکھتی جو یہ کہتے پھرتے ہیں کہ کوئی لباس شرعی نہیں، بلکہ پیغمبر خدا اگر یورپ اور امریکہ میں مبعوث ہوتے تو وہاں کے معاشرہ اور تہذیب کے مطابق لباس اختیار فرماتے اور اسی لباس کو شرعی لباس کا درجہ دیتے ،یہ سب سراسر جہالت وگم راہی پر مبنی باتیں ہیں ۔

لباسِ نبوی علی صاحبہ الصلوٰة والسلام
آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لباسِ مبارک نہایت سادہ اور معمولی ہوتا تھا ،فقیرانہ اور درویشانہ زندگی تھی ،زیادہ تر اور عام طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس میں تہہ بند ،چادر ،کرتہ ،جبہ اور کمبل ہوتے تھے اور فقرودرویشی کی حالت یہ ہوتی تھی کہ مبارک لباس میں پیوند لگے ہوتے تھے، رنگت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سبز لباس پسند تھا ؛البتہ نبی رحمت اور ہادیِ بر حق صلی اللہ علیہ وسلم کی پوشاک عموماً سفید ہوتی تھی ،آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یمنی چادر تھی، جس پر سبز اور سرخ دھاریاں تھیں، وہ آپ کوبہت پسند تھی ؛لہٰذا تقریب وغیرہ کے موقع پر آپ اس کو استعمال فرماتے تھے ،وہ بردیمانی کے نام سے مشہور تھی۔
فائدہ :آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خالص سرخ لباس استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔

ٹوپی
 نبوی لباس میں ٹوپی کا جہاں تذکرہ ملتا ہے ایسی ٹوپی کا ملتا ہے جو سر سے چپٹی ہوئی ہو اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے حوالے سے بھی اسی وصف کی ٹوپی کا استعمال ثابت ہے،صحابہٴ کرام  کی ٹوپیاں سر سے لگی ہوئی ہوتی تھیں۔

عمامہ
 حضورعلیہ الصلاة والسلام پگڑی اور عمامہ استعمال فرماتے تھے اور دونوں شانوں کے درمیان اس کا شملہ لٹکایا کرتے تھے، البتہ کبھی دائیں او ربائیں جانب بھی ڈال لیتے تھے اور کبھی تھوڑی کے نیچے لپیٹ لیا کرتے تھے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم عمامہ کے نیچے ٹوپی ضرور استعمال فرماتے تھے اور یہ ارشاد فرماتے تھے کہ : ہم میں اور مشرکین میں یہی فرق اور امتیاز ہے کہ ہم پگڑی کے نیچے ٹوپیاں استعمال کرتے ہیں اور وہ نہیں کرتے۔ ( ابوداؤد شریف، کتاب اللباس) حدیث شریف میں یہ بھی آیا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : حق تعالیٰ شانہ نے غزوہ بدر اور حنین میں میری امداد کے لیے جو فرشتے اتارے وہ عمامے باندھے ہوئے تھے۔

لنگی
ہادیِ انسانیت صلی الله علیہ وسلم کے تمام کپڑے ٹخنوں سے اوپر رہتے تھے اور بالخصوص تہہ بند نصف پنڈلی تک ہوتا تھا۔

پائجامہ
حدیث پاک میں ہے کہ نبی دو جہاں صلی الله علیہ وسلم سے منیٰ کے بازار میں پائجامہ بکتا ہوا دیکھا، دیکھ کر پسند فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ: اس میں ازار کی بہ نسبت ستر زیادہ ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے پائیجامہ خریدینا بھی ثابت ہے، البتہ استعمال کرنا ثابت نہیں ہے۔ ( سیرت مصطفی ج3،ص281 وفتاوی دارالعلوم ج16، ص:155)

موزے
محبوب رب العالمین سے چمڑے کے موزے استعمال کرنا بھی ثابت ہے اور آپ موزوں پر مسح فرماتے تھے۔

خِرقہ
لباس نبوی میں خرقہ یعنی کملی کا تذکرہ بھی بکثرت ملتا ہے، بلکہ خرقہ تو تمام انبیاء علیم الصلوٰة والسلام کا لباس رہا ہے روایت ہے:” قال ابن مسعود:کانت الانبیاء یرکبون الحمر، ویلبسون الصوف، ویحتلبون الشاة․“ (رواہ الطیالسی)
ترجمہ: حضرت عبدالله بن مسعود نے فرمایا کہ: حضرات انبیاء گدھوں کی سواری فرماتے تھے ،ا ون پہنا کرتے تھے او ربکری کا دودھ دوہتے تھے۔

وعنہ صلی الله علیہ وسلم قال:” کان علی موسی یوم کلمہ ربہ کساءُ صوف وکمةُ صوف وجبة صوف، وسراویل صوف، وکان نعلاہ من حمار میت․ رواہ الترمذی وقال غریب، والحاکم صححہ علی شرط البخاری“․ ( سیرت مصطفی ج3ص283 بحوالہ زرقانی)

اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس روز حضرت موسی کو حضرت حق جل شانہ سے شرف ہم کلامی حاصل ہوا اُس روز ان کا کمبل اون کا تھا، ان کی ٹوپی، جبہ اور پائیجامہ سب اون کے تھے او رجوتے مردار گدھے کی کھال کے تھے۔

حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رحمة الله علیہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة الله علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: حق تعالیٰ شانہ نے اپنے حبیب کو یا یھا المزمل سے خطاب کرکے ایک پوری سورت مبارکہ خرقہ پوش درویشوں کے لیے نازل فرمائی، جس میں ان کے لیے بہت سے شرائط ولوازم ذکر فرمائے ہیں۔ ( ترجمہ شیخ الہند ،تفسیر سورة المزمل)

شیطانی حملہ
انسانیت کا دشمن او رحضرت آدم اور اولادِ آدم کا ابدی مخالف لعین مردود کا سب سے پہلے جو انسان او رمٹی کے پُتلے پر حملہ ہوا اُس کا اثر بد اور بُرا انجام ننگا اوربرہنہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا کہ جنت الفردوس اور بہشت بریں میں ابوالبشر اور خلیفة الله فی الارض حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوار ضی الله عنہا بڑے سکون ووقار کے ساتھ رہ رہے تھے، لیکن انسانیت او ربشریت سے ابدی حسد رکھنے والا ملعون اس کو پسند کہاں کر سکتا تھا؟ چناں چہ اس نے وساوس اورتصرفات کرکے دونوں کو بہکانا شروع کیا اور زوجین اغوا شیطانی کا شکار ہو گئے کہ خدا کی نافرمانی سرزد ہوئی، جس کے نتیجہ میں دونوں ننگے ہو گئے او رقابلِ شرم اعضا کھل گئے، جن کو درختوں کے پتوں سے چھپاتے پھرتے تھے، کیوں کہ اِن اعضا کا دوسروں کے سامنے کھولنا یا کھل جانا انتہائی ذلت ورُسوائی اور نہایت بے حیائی کی علامت ہے او رمختلف النوع شر وفساد کا مقدمہ ہے۔

فائدہ
بعض خود ساختہ دانش وروں اور فلاسفروں کا یہ کہنا کہ: انسان ابتداءً ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اُس نے لباس ایجاد کیا، یہ سرتاپابے اصل اور نادانی وجہالت ہے ، کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے مذکورہ واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے، جو روزِ اوّل ہی سے انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔

دورہِ حاضر کی حالتِ زار
عصرِ حاضر فتنہ وفساد، اخلاقی پستی وتباہی، اسلامی اور مذہبی اقدار وروایات کی پامالی اور بے راہ روی وغلط کاری کا ہے،آج کل جہاں او ربہت سی خرابیاں او رخرافات نسلِ انسانی کی پستی کا سبب ہیں وہیں ستر پوشی اور لباس میں بھی انسانیت، حیوانیت سے ہم آہنگ ہے ، شیطان او راس کی ذریت اولادِ آدم اور بنات حوا کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے انسانیت کو شرم سار کرنے پر پوری طاقت وقوت صرف کر رہی ہے ، کبھی تہذیب وشائستگی اور ترقی وخوش حالی کے نام سے بناتِ حوا کو برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں گلی، کوچوں، سڑکوں اورچوراہوں میں لے آتے ہیں او رکبھی آزادی نسواں کا دل فریب اورخوش نما نعرہ دے کر پارکوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں، کھیلوں کے میدانوں اور فلمی ڈراموں میں عورتوں او رخاص طور پر نو عمر بچیوں کو ننگا نچاتے ہیں، کبھی اس شیطانی مشن کو ترقی کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے تو کبھی روشن خیالی سے موسوم کیا جاتا ہے، لیکن یہ انسان اور وہ بھی دین ومذہب کا پاسبان اس طاغوتی چال اور شیطانی جال کے دام فریب میں بڑی آسانی سے پھنس جاتا ہے، آج مغربی تہذیب وتمدن، بودوباش اور کاٹ چھانٹ کو نوجوان نسل، خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں دوڑ کر اختیار کررہے ہیں، نوجوان لڑکیوں نے ان کی نقل کرتے ہوئے اپنے مستور جسم اور باپردہ بدن کو برملا کھول ڈالا، سر سے اوڑھنی اور دوپٹہ بالکل غائب ہو گیا، باقی لباس بھی یا تو پورے جسم کے لیے ساتر او رچھپانے والا ہی نہیں ہے ،دونوں ہاتھ اوپر تک کھلے ہوئے ہیں، دونوں پاؤں رانوں تک کھلے ہیں اورحد تو یہ ہے کہ پیٹ اور پیٹھ بھی کھل گئے ہیں اور یا بہت زیادہ باریک لباس ہے ، جس سے جسم چھپتا ہی نہیں، بلکہ صاف نظر آتا ہے ایسے لباس کا مقصد ستر پوشی نہیں، محض زینت ہوتی ہے اور اگر لباس میں مذکورہ دونوں کمی نہ ہوں تو تیسری کمی اور نقص یہ ہے کہ وہ اتنا چست اور ٹائٹ ہوتا ہے کہ جس سے بدن کا نشیب وفراز خوب ظاہر ہوتا ہے ، ایسا لباس جس میں مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی بھی ہو اس کو پہننے والی عورتوں پر الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، لہٰذا نبی کی لعنت اور بد دعا سے بچنے کے لیے مذکورہ لباس کو استعمال نہ کریں۔

یہی حال نوجوان لڑکوں کا ہے کہ مغربی اقوام کے ساتھ قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چلنے کی دوڑ اور ہوس میں ہمارے نوجوان اپنی تہذیب ،اپنا خاندانی تمدن اور اسلامی روایات کو بالائے طاق رکھ کر ایسا لباس زیب تن کرتے ہیں جو جسمانی خدوخال کو چھپانے کے بجائے اور زیادہ نمایا ں کرتا ہے؛حالاں کہ دوسری قوموں سے مرعوب ہو کر ان کی تہذیب ،اُن کا طرز اپنانا تشبہ میں آتا ہے ،جس پر احادیث میں سخت ترین و عیدیں آئی ہیں کہ جو انسان دنیا میں جس قوم کی شباہت اختیار کرے گا وہ کل قیامت میں انہیں کے ساتھ اُٹھایا جائے گاا ور اس کا حشرانھیں کے ساتھ ہوگا،اللہ تعالیٰ شانہ تمام امت کی حفاظت فرمائے ،آمین۔

فر یضہٴ ستر پوشی
مذہبِ اسلام اور شریعت محمدی نے تمام شیطانی راستے اور دجالی شروروفتن کے دروازوں کی طرح اس راستے اور دروازہ کو بھی بند کرنے کے لیے ایمان کے بعد ستر پوشی کو فرض قرار دیا ،نماز،روزہ اور تمام ارکانِ اسلام بعد میں لباس پہلے فرض وواجب ہے۔

لباس کے آداب
نیا لباس پہنتے وقت اللہ تعالیٰ کی تعریف اور حمد بیان کر ے(دعا پڑھے)۔خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب کوئی شخص نیا لباس پہنے تو اس کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق یہ دعاء پڑھے:الحمدُ لِلِّٰہ الَّذِیْ کَسَانَيْ مَا أُوَارِيْ بِہ عَوْرَتِيْ وَأتَجَمَّلُ بِہ فِيْ حَیَاتِی․ (اللہ تعالیٰ کا شکر واحسان ہے جس نے ایسا لباس عطا فرمایا جس سے میرا بدن بھی چھپ جاتا ہے اور میری زندگی میں زیبائش بھی حاصل ہوتی ہے۔)(معارف القرآن ج3،ص534 و535 )

نیا لباس بنانے کے وقت پُرانا لباس فقراء اور مساکین پر صدقہ کردے؛ کیوں کہ حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص نیا لباس پہننے کے بعد پرانا جوڑا غریب و مسکین کو صدقہ کردے وہ اپنی موت و حیات کے ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری اور پناہ میںآ گیا۔(ابن کثیر عن مسند احمد، بہ حوالہ معارف القرآن ج3/535)

ایسا لباس ہرگز استعمال نہ کیا جائے جس سے تکبر اور غرور پٹکتاہو؛ کیوں کہ کسی بھی انسان کو تکبر اور گھمنڈ زیبا نہیں اور اگر کوئی نادان اور بے وقوف اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہوئے غرور کا ارتکاب کرتا ہے تو حدیث ہے:”کُلْ مَا شِئْتَ، وَالْبَسْ مَا شِئْتَ، مَا أخْطَأَتْکَ اثْنَتَانِ:سَرِفٌ أوْ مَخْیَلَةٌ“․(صحیح البخاری ج6،ص860)

لباس اختیار کرنے میں تنعم واسراف سے اجتناب کرے؛کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿إِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُواْ إِخْوَانَ الشَّیَٰطِیْنِ﴾․(بنی اسرائیل آیت27(فضول خرچی اور اسراف کرنے والے شیطانوں کے چیلے ہیں۔ )

دشمنان اسلام یہودونصاریٰ اور کفار و مشرکین کے لباس سے اجتناب کلی ہونا چاہیے؛کیوں کہ اس کو اختیار کرنے میں ان کی مشابہت ہوگی، جس سے بڑی شدومد کے ساتھ باز رکھا گیااللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ․(مسند احمد بن furu rdحنبل ج3ص50)جو بندہٴ خدا کسی جماعت اور قوم کی شباہت اپنائے گا وہ اسی میں سے ہے۔ یعنی قیامت میں اسی قوم کے ساتھ اٹھے گا۔

تہہ بند یا اس کی جگہ استعمال ہونے والا کوئی بھی کپڑا (پائجامہ وغیرہ) نصف پنڈلی تک ہو یا کم ازکم ٹخنوں سے اوپرہو؛کیوں کہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے پر بڑی سخت وعید ہے، ارشاد نبوی ہے:”مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الاِزَارِ فِيالنَّارِ“․(بخاری شریف )ٹخنوں کا جوحصہ ازار کے نیچے رہے گا وہ حصہ جہنم میں جائے گا ۔)

ریشمی کپڑا مردوں کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے،اس سے بچنا چاہیے، حدیث نبوی ہے:”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اِنَّمَا یَلْبَسُ الْحَرِیْرَ فِي الدُّنْیَا مَنْ لاَ خَلاَقَ لَہ فِي الْآخِرَةِ“․(بخاری و مسلم) فرمایا جو شخص دنیا ہی میں ریشمی کپڑا پہنے گا کل قیامت میں اس کاکوئی حصہ نہیں ہوگا۔

 خالص سُرخ اور زرد لباس مردوں کے لیے غیر مناسب اور مکروہ ہے ، فتاوی شامی میں ہے ” کرہ لبس المعصفر والمزعفر الاحمر والاصفر للرجال“ ․( فتاوی دارالعلوم، ج16، ص:174، بحوالہ الدرالمختار مع رد المحتار)

 مرد عورتوں کا لباس اور عورتیں مردوں کا لباس استعمال نہ کریں، کیوں کہ ایسا کرنے والے نبی کی بد دعا کے مستحق ہوں گے، حدیث ہے :”لعن النبي صلی الله علیہ وسلم المتخنثین من الرجال والمترجلات من النساء․ وقال: أخرجوھم من بیوتکم“․ (بخاری شریف رقم الحدیث 5547) الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں او رمردوں کی شباہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ : اے مسلمانو! تم ایسے لوگوں کو اپنے گھروں سے نکال دو۔

 ایسا لباس جو جسم او ربدن سے چپکا ہوا ہو اور بہت زیادہ چست ہو ایسے لباس سے مردوں اور عورتوں دونوں کو بچنا چاہیے ،بالخصوص عورتوں کو۔ کیوں کہ حدیث پاک میں ایسا لباس والی عورتوں کو لباس سے عاری اور برہنہ کہا گیا ہے، جن کے لیے دوزخ کی وعید ہے :” نساء کاسیات عاریات“․ ( مسلم شریف رقم :21128) دوزخ میں ایسے ایسے لوگ جائیں گے جن میں وہ عورتیں بھی ہیں جو کپڑا پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی۔

 اتنا باریک لباس جس میں جسم کے اعضا نظر آتے ہوں، عورتوں کے لیے ایسا لباس بالکل جائز نہیں او رمردوں کو لنگی یا پائجامہ ایسا پہننا جائز نہیں، البتہ دوسرے کپڑے باریک ہوں تو مضائقہ نہیں، کیوں کہ مردوں کا ستر صرف تہہ بند یا پائجامہ سے چھپ جاتا ہے ۔ ( فتاوی دارالعلوم، 16، ص:148)

 مرد اور عورت ہمیشہ ایسا لباس وملبوس استعمال کریں جو ان کی جنس کے اعتبار سے خوب صورتی اور زینت کا سبب بنے اور ایسا لباس ہر گز اختیار نہ کریں جس میں بے ہودگی او رحماقت ٹپکتی ہو ، کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ﴿یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِد﴾کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی فرماتے ہیں : اس آیت میں لباس کو زینت سے تعبیر فرمایا ،جس سے ایک مسئلہ یہ بھی نکلتا ہے کہ نماز میں افضل اور اولیٰ یہ ہے کہ صرف ستر پوشی پر کفایت نہ کی جائے، بلکہ اپنی وسعت کے مطابق زینت اختیار کی جائے ۔ نواسہٴ رسول حضرت حسن رضی الله عنہ کی عادت تھی کہ نماز کے وقت اپنا سب سے بہتر لباس پہنتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ : الله تعالی جمال کو پسند فرماتے ہیں، اس لیے میں اپنے رب کے لیے زینت وجمال اختیار کرتا ہوں ۔پھر یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے۔( معارف القرآن ج3، ص:573)

اور خود رب کائنات نے لباس کو ستر پوشی کا ذریعہ اورسبب بتاتے ہوئے، آرائش اور زینت فرمایا ہے ، ارشاد باری ہے : ﴿یَا بَنِیْ آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَیْْکُمْ لِبَاساً یُوَارِیْ سَوْء َاتِکُمْ وَرِیْشاً﴾․(سورة الاعراف،آیت:31)

مسائل
مرد کا ستر جس کو ہر حالت میں چھپانا فرض ہے ، ناف سے گھٹنوں کے نیچے تک ہے ، اس حصہٴ بدن میں سے کوئی عضو حالتِ نماز میں کھل جائے تو نماز فساد ہو جاتی ہے او رعام حالت میں کھل جائے تو گناہ ہو گا۔ (معارف القرآن، ج3، ص:544)

عورت کا تمام بدن ستر ہے ، البتہ چہرہ، دونوں ہتھیلیاں اور دونوں قدم ستر سے مستثنیٰ ہیں، یعنی حالت نماز میں یا عام حالت میں ضرورت سے ان کو کھول دیا جائے تو نماز درست ہو گی اور کوئی گناہ بھی نہیں ہو گا۔ لیکن یہ مطلب نہیں کہ چہرہ وغیرہ کھول کر عورت غیر محرموں کے سامنے بے روک ٹوک نکلے، اس کی قطعاً اجازت نہیں ہے۔ (فتاوی دارالعلوم، ج6، ص:186)

فائدہ
حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس گھر میں عورت ننگے سر ہو اُس گھر میں نیکی اور فرشتے نہیں آتے۔ (معارف القرآن، ج3، ص:544)

ایسا لباس زیب تن کرکے نماز پڑھنا مکروہ ہے جسے پہن کر انسان اپنے دوستوں اور عوام کے سامنے جانے میں عار اور شرم محسوس کرتا ہو، جیسے صرف بنیان پہن کر نماز پڑھنا۔ ( معارف القرآن، ج3، ص:544)

نماز میں پردہ اور ستر پوشی کے علاوہ زینت اختیار کرنے کا بھی حکم ہے، پس ننگے سر نماز پڑھنا، مونڈھے یا کہنیاں کھول کر نماز پڑھنا مکرو ہ ہے ۔ ( معارف القرآن، ج3، ص:544)

کوٹ پتلون پہن کر اگرچہ نماز ہوجاتی ہے ، مگر تشبہ بالکفار کی وجہ سے ان کا پہننا مکروہ وممنوع ہے۔ ( فتاوی دارالعلوم، ج16 ،ص:154)

جس علاقہ میں جس لباس کا رواج ہو عورتوں کو اس کے پہننے میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے ، التہ کوئی بھی لباس ہو یہ ضروری ہے کہ کشف عورت اس میں نہ ہو اور عورتوں کے لیے افضل وہ لباس ہے جس میں ستر (پردہ) زیادہ ہو، جیسے کرتا، پاجامہ اور اوڑھنی۔ ( فتاوی دارالعلوم، ج16، ص:158)

سر پر ٹوپی کی جگہ کوئی چھوٹا سا رومال یا کپڑا باندھ کر نماز پڑھنا مکروہ اور بے ادبی ہے۔ ( معارف القرآن ، ج3، ص:544)

جس لباس میں واجب الستر اعضا کا حجم او ربناوٹ نظر آتی ہو، مرد او رعورت دونوں کے لیے حرام ہے اور اس کی طرف دیکھنا بھی حرام ہے اورمروجہ لباس میں اس قباحت کے علاوہ کفار کے ساتھ مشابہت بھی ہے ، اس لیے جائز نہیں۔ (احسن الفتاویٰ، ج8، ص:82، کتاب الحظر والإباحة)
Flag Counter